آس و امید

آس و امید

 آس و امید:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آسانیاں پیدا کرو اور مشقتوں میں نہ ڈالو۔ اچھی اچھی باتیں سناؤ، اور نفرتیں نہ پھیلاؤ۔ (اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔)

امید کا مفہوم:

امید یہ ہے کہ:

اللہ تعالی کی موجودگی، اور اس کے فضل و کرم کا دائمی احساس کیا جائے، اللہ تعالی کے احسانات و انعامات دیکھ کر خوش رہا جائے، اور اللہ تعالی کی ان نعمتوں پر اعتماد رکھا جائے۔ امید نغمہ گو رہبر ہے، جو دلوں کو اللہ اور اس کی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا۔}[النساء: 110]

امید کی اقسام:

امید کی تین اقسام ہیں، اس کی دو قسمیں قابلِ تعریف، اور ایک قسم لائقِ مذمت ہے:

1. اس شخص کی امید جو اللہ تعالی کے نازل شدہ نور کی روشنی میں اس کی اطاعت و بندگی کرتا ہو اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھتا ہو۔

2. اس شخص کی امید جو گناہوں کا مرتکب ہو، پھر اپنے گناہوں سے توبہ کرچکا ہو۔ وہ شخص اللہ تعالی سے مغفرت، گناہوں کو مٹانے، درگذر کرنے اور ان گناہوں کو چھپانے کی امید رکھتا ہو۔

3. اس شخص کی امید جو گناہوں اور نافرمانیوں میں حد سے گذرگیا ہو۔ ایسا شخص بنا کسی ذاتی عمل کے اللہ تعالی سے رحمت و مغفرت کی امید رکھتا ہو۔ یہ امید ایک دھوکہ، غلط آرزو اور جھوٹی امید ہے، جو کبھی قابلِ تعریف امید شمار نہیں ہوگی، اور جو امید مومن بندوں کے دلوں میں ہوتی ہے، وہ عمل کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الہی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالی بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔}[البقرۃ: 218]

امید کے درجات:

امید کے کئی درجات ہیں۔ ان درجات کے اعتبار سے ایک بندہ دوسرے سے بلند ہوتا ہے۔ وہ درجات یہ ہیں:

1. ایسی امید جو عبادت میں جدوجہد کرنے پر ابھارے، اور چاہے عبادت مشقت بھری ہو، پھر بھی انسان کے اندر عبادت کے لئے کھڑے ہونے کو محبوب بنائے؛ اور گناہوں و منکرات سے دور رکھے۔

2. عبادت کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی اپنے نفس کی محبوب چیزوں، اس کی عادتوں، اور اپنے پروردگار و خالق کی مراد سے دور رکھنے والی اشیاء کو چھوڑنے، اور اپنے پروردگار کے لئے دلوں میں اتحاد پیدا کرنے والی چیزوں کی امید رکھںا۔

3. اصحابِ دل (متقین و اولیاء) کی امید: وہ یہ کہ اپنے پروردگار و جِلا بخشنے والی ذات سے ملاقات کی امید، نیز دلی طور پر صرف اسی سے لگاؤ کی امید رکھی جائے۔ امید کی یہ قسم سب سے اعلی و وافضل ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔}[الکھف: 110]

نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: {جسے اللہ کی ملاقات کی امید ہو پس اللہ کا ٹہرایا ہوا وقت یقیناً آنے والا ہے، وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔}[العنکبوت: 5]

جو جس چیز کی امید رکھتا ہے، وہ اس کا طلبگار ہوتا ہے۔

امید کا اللہ تعالی کی معرفت اور اس کے اسماء و صفات سے ربط:

امید کرنے والا وہ انسان جو مستقل مزاجی کے ساتھ مطیع و فرمانبردار ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو، وہ اللہ تعالی سے امید رکھتا ہے کہ اللہ اس کو گمراہی سے دور رکھے، اس کے اعمال قبول کرے، اعمال کو اس کے مُنہ پر واپس نہ مارے، اور اعمال پر زیادہ سے زیادہ اس کو ثواب عطا کرے۔ ایسا انسان اپنی استطاعت کے مطابق اسباب اختیار کرنے والا ہے، جو اللہ تعالی، اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت کے حصول کے لئے اپنے پروردگار کی رحمت سے امید لگائے بیٹھا ہے۔ اس کا یہ یقین ہے کہ وہ ایسی ذات کے ساتھ تعامل کررہا ہے، جو رحم کرنے والی، محبت کرنے والی، نوازنے والی، کرم کرنے والی، عطا کرنے والی، معاف کرنے والی اور اپنے لطف و عنایت سے نوازنے والی ہے، اور اس دنیا میں اپنے بندوں کے ساتھ شفقت کرنے والی ہے۔ یہ شخص جب بھی اپنے پروردگار کے دربار میں حاضر ہو، اس وقت وہ اس سے امن و سلامتی کی امید رکھتا ہے۔

امید کے ثمرات:

1. امید رکھنے والے شخص کے دل میں نیک اعمال اور اطاعت کرنے میں جد و جہد کا جذبہ پیدا ہوتا

ہے۔

2. چاہے حالات بدل جائیں، اور زندگی تنگ ہوجائے، پھر بھی امید رکھنے والا شخص اطاعت و فرمانبرداری کے جذبے کا پابند رہتا ہے۔

3. امید رکھنے والا شخص ہمیشگی کے ساتھ اللہ تعالی سے لَو لگائے رکھنے، اس کے دربار میں گریہ و زاری کرنے، عاجزی کے ساتھ اس سے مانگنے، اور صرف اسی سے اپنی امید باندھے رکھنے کا عادی ہوجاتا ہے۔

4. امید سے بندے کی اللہ کے لئے بندگی اور محتاجگی کا اظہار ہوتا ہے، نیز یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پَل بھر کے لئے بھی بے نیاز نہیں ہے۔

5. اللہ تعالی کے وجود اور اس کے فضل وکرم کا یقین پیدا ہوتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالی ہر اس شخص سے زیادہ سخی ہے، جس سے مانگا جاتا ہے، اور اس شخص سے زیادہ کرم کرنے والا ہے، جو لوگوں کو دیتا ہے۔ اللہ تعالی اپنے ان بندوں سے محبت کرتا ہے، جو اس سے مانگتے ہیں، اس سے امید لگائے بیٹھتے ہیں، اور اس سے گڑگڑا کر مانگتے ہیں۔

6. امید بندے کو اللہ تعالی سے محبت کی چوکھٹ پر لا کھڑا کرتی ہے، اور محبت کے اعلی مقام تک لے جاتی ہے۔ چنانچہ جس قدر بندے کے اندر امید کا جذبہ پختہ ہوگا، اور اس کی امیدوں کی برآری ہوگی، اسی قدر وہ اپنے پروردگار سے مزید محبت کرنے لگے گا، اس کا شکر ادا کرے گا، اور اس سے راضی و خوش رہے گا۔ اور یہی اللہ تعالی کی بندگی کے تقاضے بھی ہیں۔

امید رکھنے والا شخص ہمیشہ خوف اور شوق کی دہلیز پر کھڑے ہوکر اللہ کے فضل کا آرزو مند رہتا ہے، اور اس کی ذات سے ہمیشہ اچھا گمان رکھتا ہے۔ مومن وہ ہوتا ہے، جو اپنے پروردگار کے ساتھ حسنِ ظن رکھتا ہے، اور اس حسنِ ظن کے نتیجے میں اچھے اعمال کرتا ہے، اور گنہگار وہ ہوتا ہے، جو اپنے پروردگار کے ساتھ برا گمان رکھتا ہے، اور اپنے اس گمان کے نتیجے میں برے اعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالی کے ساتھ حسنِ ظن میں یہ شامل ہے کہ آپ یہ یقین کرلیں کہ اللہ تعالی اس شخص کو ہرگز ضائع ہونے نہیں دے گا، جو اس کے دربار سے پناہ کا طالب ہو۔

7. امید بندے کو مقامِ شکر پر لا کھڑا کرتی ہے؛ اس لئے کہ امید سے بندہ اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر کرنے کا عادی بن جاتا ہے، اور شکر ہی بندگی کا خلاصہ و نچوڑ ہے۔

8. اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی شناخت ہوجاتی ہے۔ بیشک اللہ تعالی رحیم، کریم، سخی، دعائیں قبول کرنے والا، جمیل، بے نیاز ہے۔ اس پاک ذات کی عظمت کیا ہی عظیم ہے!۔

9. اپنی آرزوؤں کے حصول کا سبب امید ہے۔ اور حصولِ مطلوب مزید شوق و رغبت، مزید آس لگائے رکھنے، اور اللہ تعالی کے دربار سے مزید مانگنے پر معاون ہوتا ہے۔ نیز اس طرح سے بندہ ہمیشہ اللہ تعالی کی قربت، اور اپنے ایمان میں مزید پختگی محسوس کرتا ہے۔

10. مومنوں کو قیامت کے دن اس وقت زیادہ خوشی ہوگی، جب وہ اپنی امیدوں کے مطابق اللہ تعالی کی رضامندی، جنت، اور اللہ تعالی کے دیدار سے نوازے جائیں گے۔ جنت کی یہ ساری نعمتیں بندوں کو اللہ تعالی کی ذات سے امید اور اس کے خوف کے بقدر عطا کی جائیں گی۔

امید کے باب میں کچھ ہدایات و احکام:

1. مومن کے ہاں خوف کے ساتھ امید، اور امید کے ساتھ خوف دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، اسی لئے ایسے مقامات پر امید رکھنا بہتر ہوتا ہے، جہاں پر خوف رکھنا بھی اچھا ہو: {تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کی برتری کا عقیدہ نہیں رکھتے۔}[نوح: 13]

نیز اللہ تعالی نے فرمایا: {آپ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ وہ ان لوگوں سے درگذر کریں جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے۔}[الجاثیۃ: 14]

یعنی وہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کئے جانے والے عذاب کا خوف نہیں رکھتے ہیں، جیسا کہ ان سے پہلے والے لوگوں کو اسی عذاب سے ہلاک و برباد کیا گیا تھا۔

2. امید ایک دواء ہے، جس کی ہمیں درجِ ذیل مقامت پر ضرورت پڑتی ہے:

- ناامیدی جب لوگوں کے دلوں پر حاوی ہوجاتی ہے، تو لوگ عبادتیں چھوڑدیتے ہیں۔

-انسان کے دل پر ڈر اور خوف کا غلبہ رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کی اور اپنے اہلِ خانہ کی ضرر رسانی میں ملوث ہوجاتا ہے، پھر اس کا یہ خوف شرعی حدود کو پھلاندنے پر پِل پڑتا ہے۔ اس جیسے اوقات میں اس کے لئے ایسی چیز کی ضرورت ہے، جو اس کی اصلاح کرے، اور جو اس کے اندر توازن پیدا کرے، اور وہ چیز امید ہے، جو مومن میں فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔

3. امید نا امیدی کی ضد ہے، اور ناامیدی یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت سے محرومی کو یاد کیا جائے، اور پھر اللہ تعالی سے یہ نعمت طلب کرنے میں دلی طور پر راغب نہ رہا جائے۔ نا امیدی گمراہی اور کفر کا سبب ہوتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو۔ یقیناً رب کی رحمت سے نا امید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔}[یوسف: 87]

اگر ترازو رکھا جائے، اور اس میں مومن کے دل میں پائے جانے والی امید اور ڈر کو تولا جائے، تو یہ دونوں ہم پلّہ رہیں گے۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا حساب میرے والد سے لیا جائے، کیونکہ میرا پروردگار میرے والد سے زیادہ خیرخواہ ہے۔

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ

عبادت خوف اور امید سے ہی مکمل ہوتی ہے، چنانچہ خوف سے انسان برائیوں سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے، اور امید سے عبادتوں و فرمانبرداری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

امام ابن کثیر



متعلقہ: