خوف کا مطلب:
اللہ تعالی سے خوف رکھنے کا تعلق دل کی بڑی بڑی عبادتوں سے ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {یہ خبر دینے والا صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو۔}[آلِ عمران: 175]
اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف ایک اللہ سے ڈرنا ضروری ہے۔ اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اللہ کی ذات سے خوف رکھنا ایمان کے لئے لازمہ ہے؛ چنانچہ بندے کے اندر پائے جانے والے ایمان کے بقدر ہی اس کے اندر اللہ تعالی کا خوف پیدا ہوتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے، فرماتی ہیں کہ:« میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت: »{اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں۔}«کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا اس آیت سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں اے ابوبکر کی بیٹی، اس آیت سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، صدقہ خیرات کرتے ہیں، اور اس سب کے باوجود ان کے دلوں میں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں ہماری یہ عبادتیں قبول نہ کی جائیں»(اسحدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔)
اللہ تعالی کا خوف پیدا کرنے والی چیزیں:
1. اللہ تعالی کی ذات، اور اس کے اسماء و صفات کا علم رکھتے ہوئے اللہ تعالی کا عظمت و احترام کرنا۔ {اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں۔}[النحل: 50]
2. اس بات کا خوف رکھنا کہ کہیں اس کا آخری ٹھکانہ اس کے پسند کے مطابق نہ ہو، جیسے دوزخ کا دردناک عذاب ہو۔ اور دوزخ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
3. اپنے فرائض کے تئیں کوتاہی کا احساس، نیز اللہ تعالی کے اس کے حالات پر مطلع ہونے اور اس کے معاملات پر قدرت رکھنے والا ہونے کا یقین رکھیں، اور کسی بھی گناہ یا نافرمانی کو چھوٹا نہ سمجھیں، بلکہ یہ دیکھیں کی جس کی نافرمانی کی جارہی ہے وہ کتنی عظمت و ہیبت والی ذات ہے۔
4. اللہ تعالی کے کلام قرآن کریم میں غور و فکر کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے والوں کے لئے کئی دھمکیاں اور وعید سنائی گئی ہے، نیز اس شخص کے لئے جو اس کی شریعت سے روگردانی کرتا ہے، اور اللہ کی طرف سے اپنے پاس پہنچنے والے نور ہدایت کو پسِ پشت ڈالتا ہے۔
5. اللہ تعالی کے کلام قرآن کریم، اس کے رسول کی حدیث میں غور و فکر سے کام لیا جائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنا نصب العین بنائے۔
6. اللہ تعالی کی عظمت و احترام کا پاس رکھا جائے؛ کیونکہ جو انسان اس بارے میں سوچ و فکر سے کام لیتا ہے، اس کو اللہ تعالی کی صفات سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے، اور جس انسان کے دل میں اللہ تعالی کی عظمت پیدا ہوجاتی ہے، تو اس کو اللہ تعالی سے ڈرنے کی حقیقت کا کماحقہ علم ہوجاتا ہے، پھر وہ یقینی طور پر اس سے ڈرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اللہ تعالی تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔}[آلِ عمران: 28]
نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالی کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔}[الزمر: 67]
{اللہ تعالی کا خوف یقینی طور پر اس کی ذات کا علم پیدا کرتا ہے، اور یہ علم اللہ تعالی کی خشیت کا لازمی سبب بنتا ہے، اور خشیت اللہ تعالی کی اطاعت کا اہم ذریعہ ہے۔}7. موت اور اس کی شدت کو یاد رکھا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ موت سے چھٹکارہ نہیں ہے۔ {کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی۔}[الجمعۃ: 8]
یہ سب مذکورہ بالا چیزیں اللہ تعالی کا خوف پیدا کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لذتوں کو ختم کرنے والی چیز موت کو بکثرت یاد کرو؛ کیونکہ جو بھی زندگی کی تنگدستیوں میں اس کو یاد کرتا ہے، تو اس کے لئے کشادگیوں کے راستے پیدا ہوجاتے ہیں، اور جو شخص خوشحالیوں میں موت کو یاد کرتا ہے، تو موت اس کی زندگی کو تنگ کردیتی ہے»
(اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔)
8. موت کے بعد والی زندگی، قبر اور اس کے دردناک عذاب کے بارے میں سوچا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا، لیکن اب تم قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ قبروں کی زیارت دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے، اور آخرت کو یاد دلاتی ہے»(اسحدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔)
حضرت براء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ:« ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر تشریف فرما ہوئے، اور رونے لگے، یہاں تک کہ زمین تَر ہوگئی، پھر فرمایا: اے میرے بھائیو اس جیسی چیز کے لئے تم اپنے آپ کو تیار رکھو»(اسحدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔)
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں: {لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچاسکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا (یاد رکھو) اللہ کا وعدہ سچا ہے، (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔}[لقمان: 33]
9. لوگ جن گناہوں کو معمولی سمجھ بیٹھے ہیں، اس کے بارے میں غور و فکر کریں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جیسے گناہوں کی ایسی قوم کے ساتھ تشبیہ دی ہے، جس نے کسی گھاٹی میں پڑاؤ ڈالا ہو، پھر ان میں سے ہر ایک شخص لکڑیاں لانے لگے، یہاں تک کہ ان کے پاس اتنی لکڑی اکٹھا ہوجائے جس سے کہ وہ اپنی روٹیاں سیکنے لگیں۔ یاد رہے کہ لکڑیاں اکٹھا کرنے و آگ جلانے، اور گناہ و گنہگاروں کی چمڑیاں جلنے کے درمیان گہرا تعلق ہے: {جب ان کی کھالیں پک جائیں گی۔}[النساء: 56]
10. بندہ یہ یقین رکھے کہ اس کے درمیان اور توبہ کے درمیان اچانک آنے والی موت آڑے ہوگی، اور اس وقت حسرت و افسوس بے سود ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {یہاں تک کہ ان میں سے جب کسی کو موت آنے لگتی ہے، تو کہتا ہے اے میرے پروردگار مجھے واپس لوٹادے۔}[المومنون: 99]
نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: {تو انہیں اس رنج و افسوس کے دن کا ڈر سنادے۔}[مریم: 39]
11. برے انجام کے بارے میں سوچیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {فرشتے ان کے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں۔}[الانفال: 50]
12. ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں، جن سے آپ کے اندر اللہ کا خوف و خشیت پیدا ہو، اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)}[الکھف:]
اللہ تعالی کی ذات سے کیا جانے والا خوف دو چیزوں سے مربوط ہے:
الف: اللہ تعالی کے عذاب کا خوف:
وہ عذاب جس سے اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک بنانے والوں، اس کی نافرمانی کرنے والوں اور اللہ تعالی کی اطاعت و بندگی سے دور رہنے والوں کو دھمکایا گیا ہے۔
ب: اللہ تعالی کی ذات کا خوف:
یہ خوف علماء اور اللہ تعالی کی ذات کی معرفت رکھنے والوں کے اندر پایا جاتا ہے: {اور اللہ انہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔}[آلِ عمران: 28]
اللہ تعالی کی معرفت جس قدر زیادہ ہوگی، اسی قدر اللہ کا خوف بھی زیادہ ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔}[فاطر: 28]
اس لئے کہ جب ان کے اندر اللہ کی ذات، اس کے اسماء و صفات کی معرفت کمال تک پہنچ گئی، تو انہوں نے خوفِ الہی کو ترجیح دی، پھر اس کے اثر سے ان کے دل امڈ پڑے، اور یہی اثر ان کے اعضاء و جوارح سے ظاہر ہونے لگا۔
جب اللہ تعالی کی ذات کا خوف دل میں گھر کرجائے، تو وہ دل میں پائے جانے والی شہوتوں کی دنیا جلادیتا ہے، اور خواہشات کو دور رکھتا ہے۔اللہ تعالی کی ذات سے خوف رکھنے پر ملنے والے فوائد:
الف: دنیا میں:
1. زمین پر قدرت و غلبہ پیدا کرنے، اور ایمان و سکون میں زیادتی کا ایک سبب ہے، اس لئے کہ جب تمہیں وعدے کے مطابق کوئی چیز مل جائے، تو تمہارا اعتماد اور بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کردیں گے۔ اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزدہ رہیں۔}[ ابراھیم: 13-14]
2. خوف نیکی کرنے، اخلاص پیدا کرنے، اور دنیا میں کسی بدلے کا طلبگار نہ بننے پر ابھارتا ہے، کیونکہ آخرت میں ملنے والے بدلے میں تو کوئی کمی ہونے والی نہیں ہے۔
{ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالی کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں، نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکرگذاری۔}
[الانسان: 9-10]
نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، وہاں صبح و شام اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔}[النور: 36-37]
یعنی بے چین و بے قرار ہوجاتے ہیں، اور یہی وہ چیز ہے، جس پر عمل ابھارتا ہے۔ یہ لوگ نجات کے امیدوار ہیں، ہلاکت و بربادی کا انہیں خدشہ ہے، اور یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں انہیں اپنا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں نہ دے دیا جائے۔
جب اللہ تعالی کی ذات کا خوف دل میں گھر کرجائے، تو یہ خوف دل میں پائے جانے والی شہوتوں کی دنیا جلادیتا ہے، اور خواہشات کو دل سے دور رکھتا ہے۔ جو اللہ تعالی کا خوف رکھتا ہے، تو خوف ہر بھلائی کی طرف اس کی رہبری کرتا ہے۔ب- آخرت میں:
1. بندہ قیامت کے دن عرش کے سائے تلے ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: « ۔ ۔ ۔اور وہ انسان جس کو کسی صاحبِ منصب و خوبصورت خاتون نے زنا کی دعوت دی، اور وہ یہ کہے کہ میں اللہ تعالی کا خوف رکھتا ہوں ۔ ۔ ۔»
(اسحدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔)
حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے یہ جملہ کہتا ہے، تاکہ وہ خاتون کو اس کے برے ارادے سے دور رکھے، اپنے آپ کو بھی یہ یاد دلائے، اپنے فیصلے پر اٹل رہے، اور اپنے اصولوں سے رجوع نہ کرے۔ « ۔ ۔ ۔ اور وہ انسان جو تنہائی میں اللہ تعالی کو یاد کرے، اور اس کی آنکھیں بَھ نکلی ہوں ۔ ۔ ۔"»
(اسحدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔)
آنسو بہانے والا خوف اس بات کا متقاضی ہے کہ قیامت کے دن اس آنکھ کو آگ نہ چھوئے۔
2. خوف مغفرت کا سبب ہے، اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: «آپ سے پہلی والی اقوام میں ایک شخص تھا، جس کو اللہ تعالی نے مال کی نعمت سے نوازا تھا، جب وہ حالتِ نزع میں تھا، اس وقت اس شخص نے اپنی اولاد سے یہ کہا: میں تمہارے لئے کیسا باپ رہا؟ تو بچوں نے کہا: آپ ہمارے بہت اچھے باپ تھے۔ اس نے کہا: یقیناً میں نے کبھی کوئی بھلائی نہیں کی ہے، لہذا جب میں مرجاؤں، تو میری نعش کو جلادو، پھر اس کی راخ کو اکٹھا کرکے تیز ہواؤں میں اس کو اڑادو۔ چنانچہ بچوں نے ایسے ہی کیا۔ پھر اللہ تعالی نے اس شخص کی راخ کو اکٹھا کیا، پھر اس سے کہا: کس بناء پر تم نے ایسا کیا تھا؟ تو وہ شخص جواب دیتا ہے: آپ کے خوف کی بناء پر، تو اللہ تعالی اس کو اپنے آغوشِ رحمت میں لے لیتے ہیں»
(اسحدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔)
اللہ تعالی نے جہالت کی وجہ سے اس کو معذور سمجھا، اور اس شخص کے دل میں اپنے پروردگار سے پائے جانے والے خوف نے اس کو شفاعت کا مستحق بنادیا، ورنہ جو شخص موت کے بعد جِلائے جانے کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
3. خوف انسان کو جنت کی طرف لے جاتا ہے؛ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: «جس میں خوف پیدا ہوگیا، وہ داخل ہوگیا، اور جو داخل ہوگیا، وہ اپنے منزلِ مقصود کو پالیا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالی کی پونجی بہت قیمتی ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالی کی پونجی جنت ہے»
»(اسحدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔)
4. قیامت کے دن ملنے والا امن و امان۔ اللہ تعالی حدیثِ قدسی میں فرماتے ہیں: «میری عزت و جلال کی قسم میں میرے بندے کے حق میں دو خوف اور دو سکون اکٹھا کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا ہوں۔ چنانچہ جب وہ دنیا میں مجھ سے خوف کرنے والا ہوگا، تو میں قیامت میں اس کو بے خوف رکھوں گا۔ اور جب وہ دنیا میں میرے عذاب سے بے خوف تھا، تو قیامت کے دن میں اس کے دل میں خوف ڈال دوں گا۔ »
(اسحدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔)
5. خوف سے بندہ ان صفات کا حامل ہوجاتا ہے ، جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کے بارے میں کیا ہے، جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالی نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔}
[الاحزاب: 35]
یہ سب بڑے مرتبے والی صفات ہیں، جس کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: {ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے۔}[السجدۃ: 16 - 17]
نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں: {بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں [عبادت میں] گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، [اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہوسکتے ہیں] بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ [اپنے رب کی طرف سے]۔}[الزمر: 9]
اللہ تعالی یہ بھی فرماتے ہیں: {اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں۔}[المعارج: 27-28]
اللہ تعالی نے اپنے مقرب بندوں، یعنی انبیاء کی تعریف کی؛ کیونکہ وہ سب اپنے دلوں میں اللہ تعالی کا خوف رکھتے تھے: {یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور خوف سے پکارتے تھے۔}[الانبیاء: 90]
بلکہ فرشتے بھی اپنے پروردگار کا خوف رکھتے ہیں: {اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں، اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔}[النحل: 50]
6. اللہ تعالی کی خوشنودی: {اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے۔ یہ ہے اس کے لئے جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔}[البینۃ: 8]
معرفتِ الہی رکھنے والوں کے دلوں میں پایا جانے والا خوف:
معرفتِ الہی رکھنے والے لوگ اپنے نیک اعمال اور اللہ تعالی کی ذات سے امید باندھے رکھنے کے باوجود اللہ تعالی کا خوف رکھتے ہیں، اور سب سے زیادہ اس کی خشیت اپنے اندر رکھتے ہیں؛ اس کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں:
-حالتِ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہ و زاری، یہاں تک کہ رونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سینے سے ایک آواز سنی جاتی تھی، جس طرح کہ ہانڈی کے ابلنے سے آواز آتی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد، ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
-حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑتے تھے، اور کہتے تھے: «اسی نے مجھے ہلاکت و بربادی میں ڈال رکھا ہے»
نیز کہا کرتے تھے: «کاش کہ میں کوئی ایسا درخت ہوتا، جس کو کھالیا جاتا»
-حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے تھے: «کاش کہ میں کوئی قابلِ ذکر چیز ہی نہ ہوتا۔ کاش کہ میری ماں مجھے جنی ہی نہ ہوتی»
حضرت عمر کہتے تھے: «اگر بھولا بھٹکا جانور نہرِ فرات کے کنارے مرجائے، تو بھی مجھے یہ خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں اللہ تعالی مجھ سے اس کے بارے میں سوال نہ کرلے»
نیز کہا کرتے تھے: «اگر آسمان سے منادی یہ صدا لگائے کہ: اے لوگو تم سب جنت میں داخل ہونے والے ہو، سوائے ایک شخص کے، تو ضرور مجھے یہ خوف لگا رہے گا کہ کہیں وہ ایک شخص میں ہی نہ رہوں»
-عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
« میری یہ چاہت ہے کہ اگر میں مرجاؤں، تو دوبارہ اٹھایا نہ جاؤں۔»
یہی وہ حضرت عثمان ہیں جو ساری رات تسبیح و تلاوت اور نمازوں میں گذار دیا کرتے تھے۔
-ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قرآن کریم کی یہ آیت اپنی نمازوں میں پڑھتی تھیں: {پس اللہ تعالی نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز و تند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچالیا۔}[الطور: 27]
پھر زار و قطار رونے لگتی تھیں ۔ ۔ ۔
{اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرمادے تو تو زبردست حکمت والا ہے۔}
[المائدۃ: 118]
خوف کے احکام اور کچھ ہدایات:
1. خشیت خوف سے بڑی چیز ہے؛ کیونکہ خشیت اس شخص میں ہوتی ہے، جو اللہ کی زیادہ معرفت رکھتا ہے: {اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں، واقعی اللہ تعالی زبردست بڑا بخشنے والا ہے۔}[فاطر: 28]
یعنی خشیت اس خوف کا نام ہے، جو معرفتِ الہی سے مربوط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «جہاں تک میری بات ہے، تو میں تم سب میں سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ کی ذات سے خشیت رکھنے والا ہوں»
(اسحدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔)
اللہ تعالی کی ذات، اس کے اسماء و صفات، اس کے جلال وکمال کی معرفت کے مطابق خوف و خشیت پیدا ہوتی ہے۔
2. خوف اس وقت سودمند ہوتا ہے، جبکہ عمل کا جذبہ پیدا کرے، اور گناہوں پر شرمندگی اور دور رکھتے ہوئے توبہ کرنے کا راغب بنائے، چنانچہ خوف گناہ کی قباحت، اللہ تعالی کی طرف سے سنائی ہوئی وعید کو سچ سمجھنے، اور بلند و بالا عظمت والے پروردگار کی معرفت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی ذات سے ایسے کسی خوف کا تصور محال ہے، جو عمل اور توبہ کے بغیر پیدا ہو۔
3. اللہ تعالی کی ذات سے خوف رکھنا ایک فرض ہے، اور ایمان کے تقاضوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ خوف طریقت و معرفت سے اونچا مقام اور دل کی پاکیزگی کے لئے سب سے زیادہ نافع ہے۔ خوف رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ خوف انسان کو گناہوں سے، دنیا سے، بری صحبتوں سے، غفلت و لاپرواہی سے، اور احساسِ نعمت کے ناپید ہونے سے دور رکھتا ہے۔
اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں، واقعی اللہ تعالی زبردست بڑا بخشنے والا ہے۔ جو شخص اللہ تعالی کا خوف رکھتا ہے، اس کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے، اور جو اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف اپنے اندر رکھتا ہے، اس کے لئے کوئی چیز سودمند ثابت نہیں ہوگی۔فضیل بن عیاض