محبت

محبت

محبت

 

اللہ تعالی سے محبت کا مفہوم:

 

اللہ تعالی سے محبت: اس کا مطلب اللہ تعالی کی ذات سے دلی لگاؤ، اس سے انسیت،

 اس کے احکامات کے مطابق عمل، اور دل پر اللہ تعالی کا ذکر غالب ہونا ہے۔
 

اللہ تعالی کی ذات سے محبت کی حقیقت:

جو اللہ تعالی کو پہچان لے، وہ اس سے محبت کرنے لگے۔
 

اللہ تعالی کی ذات سے محبت کا مفہوم اس کی عبادت و بندگی سے محبت، اس کے سامنے

 عاجزی و انکساری، اور اس کی تعظیم ہے، یعنی محبت رکھنے والے کے دل میں اللہ تعالی
کی عظمت و ہیبت ہو، جو اس کو اللہ تعالی کے احکامات پرعمل کرنے اور اس کی منع کی
ہوئی چیزوں سے اجتناب کرنے کے متقاضی ہو۔ یہی محبت ایمان اور توحید کی اصل جڑ ہے،
 اور اس کے ضمن میں لامحدود فضائل و خوبیاں آتی ہیں۔ اللہ تعالی کی ذات سے محبت
کے مفہوم میں اس مقام، وقت، اشخاص، اعمال، اقوال، اور ان جیسی ساری ان چیزوں سے
محبت کرنا بھی شامل ہے، جن کو اللہ تعالی پسند کرتے ہیں۔
 

نیز یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی محبت صرف اسی ایک کے لئے خالص و سچی محبت

 ہو، اور فطری محبت، جیسے بیٹے کی اپنے باپ سے محبت، باپ کی اپنے بیٹے سے محبت،
شاگرد کی اپنے استاذ سے محبت، اسی طرح کھانے پینے، شادی کرنے، کپڑے پہننے کی محبت،
دوستوں سے محبت وغیرہ اللہ تعالی کی ذات سے محبت کے منافی نہیں ہے۔
 

حرام و ناجائز محبت اللہ تعالی کی محبت کے باب میں شرک کے مماثل ہے، جیسے مشرکوں

کی اپنے بُت و آقاؤں سے محبت، یا اپنی محبوب چیزوں کو اللہ تعالی کی پسند کردہ
چیزوں پر فوقیت دینا، یا اس مقام، وقت، شخص، عمل اور قول کی محبت جس کو اللہ تعالی
 ناپسند کرتے ہوں، یہ سب امور انحطاط و تنزلی کا سبب ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{ بعض
 لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھراکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں،
جیسے محبت اللہ سے ہونی چاہئے، اور ایمان والے اللہ کی محبت میں سخت ہوتے ہیں۔
 }(البقرۃ: 165)
 

اللہ تعالی کی ذات سے محبت رکھنے کے چند فضائل:

اللہ تعالی کی عبادت محبت، خوف اور امید جیسی چیزوں سے بڑھ کر کسی اور چیز
سے نہیں کی جاسکتی۔
 

1-محبت دراصل وحدانیت کی جڑ ہے، اور وحدانیت کی روح ایک اللہ کی ذات سے خالص

محبت رکھنا ہے، بلکہ حقیقت میں محبت تو عبادت کا سرچشمہ ہے، اور وحدانیت اسی وقت
مکمل ہوسکتی ہے، جبکہ اللہ تعالی سے بندے کی محبت کامل و مکمل ہو، ساری محبوب چیزوں
پر یہ محبت غالب ہو، اور محبتِ الہی ساری چیزوں کا محور ہو، اس طور پر کہ بندے
کی ساری محبوب چیزیں اسی محبت کے تابع ہو، جو بندے کی سعادت و فلاح کی ضامن ہے۔
اللہ تعالی سے لگاؤ اور اس سے ملنے کا شوق ایک نسیمِ سحر ہے، جس کے دل پر
پڑنے والے جھونکوں سے دنیا کی پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔
 

2-پریشانیوں میں بندے کا پُرسکون ہونا؛ چنانچہ محبت رکھنے والا بندہ اپنے آپ

میں محبت کی وہ لذت محسوس کرتا ہے، جس کے سامنے ساری پریشانیاں ہیچ ہوجاتی ہیں،
  بلکہ وہ ان پریشانیوں کو بھول ہی جاتا ہے۔
روئے زمین پر اس انسان سے زیادہ بد بخت کوئی اور نہیں ہے، جو اللہ تعالی
کی ذات سے انسیت اور اس کے ذکر سے طمانینت کی نعمت سے محروم ہو۔
 

3-نعمتوں کی معراج اور خوشیوں کی انتہاء: صرف اللہ تعالی کی محبت سے ہی اس کا

حصول ممکن ہے، دل کو بے نیازی، اس میں موجودہ فراغ کی تکمیل، اور اس کی بھوک سے
 سیرابی صرف اللہ تعالی کی محبت اور اس کی طرف رجوع کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر
بندے کو لذتوں کے سارے اسباب فراہم ہوجائیں، تو بھی وہ ان سے اس وقت تک مطمئن و
مانوس نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ اس کو اللہ تعالی کی محبت میسر نہ ہوجائے؛ اس لئے
 کہ اللہ تعالی کی محبت دلوں کے لئے باعثِ نعمت و سعادت ہے۔ پاک دل، صاف نفس، اور
روشن عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالی کی ذات سے محبت و انسیت، اور اس کی
ملاقات کے شوق سے زیادہ کوئی چیز زیادہ خوشی، زیادہ اچھی، زیادہ لذیذ، اور زیادہ
میٹھی نہیں ہے۔ جو مٹھاس مومن اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، وہ ہر قسم کی مٹھاس سے
زیادہ بلند ہے۔ محبتِ الہی سے جو سعادت و خوشی مومن محسوس کرتا ہے، وہ ساری نعمتوں
سے زیادہ کامل ومکمل ہے، اور جو لذت مومن کو میسر ہے، وہ ساری لذتوں سے زیادہ عمدہ
 ہے۔
تین خصلتیں جس کسی شخص میں پائی جائیں گی، وہ ضرور ایمان کی مٹھاس محسوس
 کرلے گا:اس کے دل میں اللہ تعالی اور اس کا رسول ان دونوں کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ
  محبوب ہوں۔ انسان اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے، اور
ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح ناپسند کرے، جس طرح کہ وہ آگ میں گرنا
پسند نہیں کرتا ہےاس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم اور امام نسائی
 نے روایت کیا)
 

اللہ تعالی کی محبت پیدا کرنے والے اسباب:

 

ہمارا پروردگار اُس سے محبت کرنے والوں اور اس سے قربت حاصل کرنے والوں کو پسند

کرتا ہے، اور اللہ تعالی کی محبت پیدا کرنے والا سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ بندہ
اپنے پروردگار سے ساری مخلوق سے زیادہ محبت کرے۔ اللہ تعالی کی محبت پیدا کرنے
  والے اسباب کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
 

1- قرآن کریم کی غور و فکر، سمجھ بوجھ اور اس کی مراد کو سمجھتے ہوئے تلاوت کرنا۔

 جو شخص اللہ کی کتاب کی تلاوت کو اپنا شغلِ شاغل بنالے اور اس پر عمل کرے، تو اس
 کا دل اللہ کی محبت سے آباد ہوجاتا ہے۔
 

2-فرائض کی ادائیگی کی بعد نوافل کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا:میرا

 بندہ نفلی عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قربت حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس
سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، تو میں اس کا وہ
 کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، وہ آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے،
وہ ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور وہ پاؤں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا
ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے، تو میں اس کو عطا کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے پناہ
 مانگتا ہے، تو میں اس کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں( حدیثِ قدسی۔ اس
حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)
 

3-زبان و دل، اور عمل و کردار سے ہر حال میں اللہ تعالی کا دائمی طور پر ذکر

کرنا۔
جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی۔}( المائدۃ:
 54)
 

4-اپنی نفسانی خواہشات اور رغبتوں کے سامنے اللہ تعالی کی محبوب چیزوں کو فوقیت

 دینا۔
 

5- اللہ تعالی کے اسماء و صفات اور اس کی معرفت کو ہمیشہ دل میں مستحضر رکھنا۔

 

6- اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی ظاہری و باطنی نعمتوں، اس کے احسانوں اور

اس کے خیر کو ہمیشہ مدِ نظر رکھنا۔
 

7- اللہ تعالی کے روبرو دل کی گہرائیوں کے ساتھ عاجزی اختیار کرنا۔

 

8- رات کے آخری تہائی حصے میں، جبکہ اللہ تعالی آسمانِ دنیا پر اتر آتے ہیں،

 اللہ تعالی کے ساتھ تنہائی میں مناجات کرنا۔ تنہائی میں اللہ تعالی کے روبرو گڑگڑانا،
 قرآن کریم کی تلاوت کرنا، حالتِ نماز میں کھڑے ہوکر اس کا ادب و احترام کرنا، پھر
  توبہ و استغفار سے اپنی عبادت کو ختم کرنا۔
 

9- سچے و مخلص لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا، ان کی اچھی اچھی باتوں سے عبرت حاصل

 کرنا، جس طرح سے کہ اچھے اچھے پھلوں کو توڑا جاتا ہے۔ اسی وقت بات کرنا، جب اپنی
 بات حالات کے لئے مزید وضاحت، اور دوسروں کے لئے باعثِ منفعت ہو۔
 

10-ہر اس چیز سے دور رہنا جو اللہ تعالی اور دل کے درمیان حائل و مانع بنتی

ہو۔
 

اللہ تعالی کی محبت سے بندے کو ملنے والے بعض فوائد:

 

-اللہ تعالی جس سے محبت کرتے ہیں، اس کو راہِ راست پر چلاتے ہیں، اور اس کو

  اپنے دربار کا قریبی بناتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ
تعالی فرماتے ہیں: میں بندے کے ساتھ میرے بارے میں اس کے گمان کے مطابق معاملہ
 کرتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس کے ساتھ ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ مجھے
اپنے دل دل میں یاد کرتا ہے، تو میں بھی اس کو اپنے دل دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر
 وہ بھری جماعت میں مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کا تذکرہ
 کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے، تو میں اس سے ایک ہاتھ برابر
قریب ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ہاتھ برابر قریب ہوتا ہے، تو میں اس سے میٹر برابر
 قریب ہوتا ہو، اور اگر وہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے، تو میں اس کی پاس دوڑتے ہوئے
چلا آتا ہوں (صحیح بخاری)
 

بندہ جتنا اپنے پروردگار کا خوف رکھتا ہے، اسی قدر وہ اخروی ہدایت کے درجات

چڑھتا جائے گا۔ اللہ تعالی بندے سے جتنی زیادہ محبت کرتا ہے، اسی قدر وہ اس کو
راہِ راست پر چلاتا ہے، اور بندہ جس قدر راہِ راست پرگامزن رہتا ہے، اسی قدر اس
کے اندر تقوی پیدا ہوگا۔
 

- اللہ تعالی جس بندے سے محبت کرتا ہے، اس کے لئے زمین پر قبولیت مقدر کردیتا

 ہے:اللہ کے محبوب بندے کے لئے قبولیت کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ اس کی طرف جھکے چلے
 آئیں گے، اس سے خوش رہیں گے، اس کی مدح سرائی کریں گے، اور ہر چیز اس سے محبت کرنے
  لگے گی، ہاں کافر اس سے محبت نہیں کرے گا، اس لئے کہ کافر نے تو اللہ تعالی کی
محبت ہی کو دھتکارا ہے، تو پھر کیسے وہ اللہ کے محبوب بندوں سے محبت کرے گا؟ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یقیناً اللہ تعالی جب کسی بندے سے محبت
کرتا ہے، تو جبرئیل سے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم
بھی اس سے محبت کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل اس
سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ آسمانوں میں صدا دیتے ہیں کہ سن لو، اللہ تعالی
 فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں، لہذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی
  اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر اس بندے
 کے لئے زمین میں قبولیت مقدر کردی جاتی ہے( اس حدیث کو امام مسلم نے
 روایت کیا ہے)
 

نیز جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں، تو اپنی خاص عنایت و کرم

سے اس کو ڈھانک لیتے ہیں، ہر چیز کو اس کے لئے فرمانبردار بنادیتے ہیں، ہر مشکل
کو آسان بنادیتے ہیں، ہر مسافت قریب کردیتے ہیں، اور دنیوی معاملات آسان کردیتے
 ہیں، چنانچہ وہ اپنے معاملات میں کوئی پریشانی یا تکلیف کا احساس نہیں کرتا ہے۔
 اللہ تعالی فرماتے ہیں:{ بیشک جو ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے شائستہ اعمال
کئے ہیں ان کے لئے اللہ رحمن محبت پیدا کردے گا۔ }(مریم: 96)
 
سچا ایمان روح کی غذاء اور خوشیوں کا محور ہے، اور اللہ تعالی کی ذات کا
انکار کرنا روح کے لئے موت سے پہلے موت اور غموں کا مرکز ہے۔
 

-جب اللہ تعالی کسی کو اپنا محبوب بناتے ہیں، تو ہمیشہ وہ اس کے ساتھ رہتے ہیں:

  جب اللہ تعالی کسی بندے کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں، تو وہ ہمیشہ اپنی عنایت و کرم
سے اس کو گھیرے رکھتے ہیں، اور اس بندے پر کسی ایسے شخص کو مسلط ہونے نہیں دیتے
 ہیں، جو اس کو تکلیف یا اذیت پہنچائے۔ حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے کہا: جو میرے محبوب سے دشمنی
 کرے، میں اس کے ساتھ اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ فرائض سے ہٹ کر میری محبوب چیزوں میں
 سے کسی ایک کے ذریعہ جب بندہ میرا قرب حاصل کرتا ہے، تو اس سے زیادہ میرے لئے کوئی
 چیز محبوب نہیں ہے۔ میرا بندے نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کی سعی میں لگا
رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے
 لگتا ہوں، تو میں اس کا وہ کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، وہ آنکھ بن جاتا
 ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، وہ ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور وہ پاؤں
 بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے، تو میں اس کو عطا کرتا
 ہوں، اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے، تو میں اس کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں۔
 اور میں اپنے فیصلوں میں سے کسی بھی چیز کے کرنے میں اس قدر پس و پیش کا شکار نہیں
 ہوتا ہوں، جس قدر کہ مومن بندے کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہوں، کیونکہ وہ موت کو
 ناپسند کرتا ہے، اور مجھے اس کو تکلیف پہنچانا ناپسند ہے( اس حدیث کو
امام بخاری نے روایت کیا ہے)
 

- اللہ تعالی جس کو اپنا محبوب بنالیتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے:مومن بندوں

سے اللہ تعالی کی محبت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کی دعائیں قبول کرتا
ہے، اور محض ہاتھ اٹھاکر اس سے مانگنے اور  یا رب کہنے پر ہی ان پر اپنی نعمتوں
 کی بارش برسا دیتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{ جب میرے بندے میرے بارے
  میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ ہر پکارنے والے کی
پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں، اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میری
بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔ }( البقرۃ:
 186)
 

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ

 علیہ وسلم نے فرمایا:یقینا اللہ تعالی زندہ اور سخی ہے، اس کو اس بات سے حیاء
 محسوس ہوتی ہے کہ کوئی بندہ اس کے سامنے ہاتھ اٹھائے اور وہ اس کو خالی ہاتھ لوٹادے۔ ( اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے)
 

جب اللہ تعالی کسی بندے کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں، تو فرشتوں کو ان کے لئے

مغفرت کا طلب گار بنادیتا ہے: فرشتے اس شخص کے لئے مغفرت کے طالب رہتے ہیں جس سے
 اللہ تعالی محبت کرتے ہیں، اور اس کے لئے اللہ تعالی سے نزولِ رحمت کی دعائیں مانگتے
ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے (فرشتے)
اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان
  والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز کو
اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری
راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچالے۔ }(غافر:
 7)
 

نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں:{ قریب ہے آسمان ان کے اوپر سے پھٹ پڑیں۔

 اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، زمین والوں کے
 لیے استغفار کر رہے ہیں۔ خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالی ہی معاف فرمانے والا رحمت
والا ہے۔} (الشوریٰ: 5)
 

جب اللہ تعالی کسی کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں، تو خاتمہ بالخیر کی نعمت سے اس

کو نوازتے ہیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:جب اللہ تعالی
کسی بندے سے بھلائی کا اردہ رکھتے ہیں، تو اس کی زندگی میں مٹھاس پیدا کردیتا ہے۔
پوچھاگیا کہ مٹھاس پیدا کرنے کا کیا مطلب؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا
کہ: اللہ تعالی اس کے لئے موت سے پہلے نیک اعمال کے دروازے کھول دیتا ہے، اور اسی
پر اس کو موت ہوتی ہے(اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے)
 

-جب اللہ تعالی کسی کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں، تو موت کے وقت اس کو مامون رکھتے

ہیں: جب اللہ تعالی کسی کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں، تو دنیا میں اس کو امن و امان،
اور موت کے وقت اس کو ثابت قدمی و راحت کی دولت سے نوازتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی
فرشتوں کو اس کے پاس بھیجتے ہیں، جو بسہولت و آسانی اس کی روح قبض کرتے ہیں، موت
کے وقت اس کو استقرار عطاء کرتے ہیں، اور جنت کا مژدہ اسے سناتے ہیں۔ اللہ تعالی
فرماتے ہیں:{( واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروروگار اللہ ہے پھر اسی
پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے(یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم
نہ کرو۔ اس جنت کی بشارت سن لو جس کاتم وعدہ دئے گتے ہو۔ }( فصلت:
 30)
 

-جب اللہ تعالی کسی بندے کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں، تو ہمیشہ کے لئے اس کا

ٹھکانہ جنت بنادیتے ہیں: جو اللہ کا محبوب بن جائے، آخرت میں اس کا ٹھکانہ جنت
ہوگا۔ آخرت میں اللہ تعالی کا جو لطف و کرم اپنے محبوب بندوں نہ کسی بشر کے دل میں کبھی پیدا ہوا ہے، اور نہ کبھی ہوگا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے
اپنے محبوب بندوں کے لئے ایسی جنت کا وعدہ کیا ہے، جس میں انسانی چاہت کے مطابق
ہر چیز ہوگی، جیساکہ حدیثِ قدسی میں آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ:اللہ تعالی فرماتے ہیں: میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں رکھی
ہیں، جن کو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے، اور نہ کبھی کسی
انسان کے دل میں اس کا خیال پیدا ہوا ہے۔ اگر تم چاہو تو قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت
کرلو: {کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے
لئے پوشیدہ رکھی ہے۔ }( اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا
ہے)
دنیا کی خوبصورتی صرف اللہ تعالی کی محبت و اطاعت میں پنہاں ہے، اور جنت
کا جمال اللہ تعالی کے دیدار میں مضمر ہے۔
 

اللہ تعالی کا محبوب بندہ بننے کا ایک ثمرہ یہ ملتا ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے

دیدار سے بہرہ ور ہوتا ہے:اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کے لئے اپنے نور کے ساتھ
تجلی فرمائیں گے، چنانچہ یہ لوگ اس سے زیادہ محبوب چیز کبھی نہیں دیکھیں گے، اس
لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کی گئی کہ آپ نے ایک چاندنی رات میں
 چاند کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: یقیناً تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھوگے،
جس طرح سے کہ آج تم یہ چاند دیکھ رہے ہو۔ اگر تم طلوعِ شمس اور غروبِ شمس سے پہلے
والی نمازوں کو فوت ہونے نہ دے سکو، تو ضرور ایسے ہی کرو، یعنی فوت ہونے نہ دو،
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی: {اور اپنے
  رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے
سے پہلے بھی۔ }(صحیح بخاری)
 

محبت کے باب میں کچھ ہدایات و احکام:

 

1- بندے کا اللہ تعالی کے محبوب بن جانے سے بلائیں و آزمائش اس سے دور نہیں ہوتی

 ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیشک آزمائش جتنی زیادہ بڑی ہوگی، اسی
قدر بدلہ بھی بڑا ملے گا۔ یقیناً جب اللہ تعالی کسی قوم کو اپنا محبوب بناتا ہے،
 تو اس کو آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے، اب جو ان آزمائشوں سے راضی و خوش رہے، تو
 اس کو اللہ کی رضامندی حاصل ہوگی، اور جو ناراض رہے، اس کے مقدر میں اللہ کی ناراضگی
 ہوگی(س حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے)
 

اللہ تعالی بندے کو طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے، یہاں تک کہ گناہوں

 سے اس کو پاک کردیتا ہے، اور اس دنیا کی محبت سے اس کے دل کو خالی کردیتا ہے، اللہ
تعالی فرماتے ہیں:{یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد
کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کردیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ
کرلیں۔ }(محمد: 31)
 

نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں:{ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور

کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ان
صبر کرنے والوں کو خو شخبری دے دیجئے، جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ
 دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملیکت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے
ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔}(البقرۃ:
 155-157)
 آزادی کا مطلب دل کا شرک، شبہات اور شہوتوں سے آزاد ہونا، اور بندگی کا مطلب
دل کی غلامی ہے، یعنی دل اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی غلامی نہ کرے
 

2-بندے کا اپنے پروردگار کی نافرمانی کرنا محبت کی کمی اور زوال کا سبب ہے۔

محبت کے لئے بھی بالکل ایمان کی طرح کچھ اصول اور کچھ کمالات ہیں۔ چنانچہ گناہوں
کے بقدر ان کمالات میں کمی آجاتی ہے، اور جب انسان شک اور نفاقِ اکبر کے مرحلے
میں داخل ہوجائے، تو محبت کی جڑ ہی اکھڑ آتی ہے، اور محبت ناپید ہوجاتی ہے۔ جس
شخص کے دل میں اللہ تعالی کی محبت نہ ہو، وہ کافر، مرتد اور منافق ہے، دین میں
 اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جہاں تک گنہگار لوگوں کی بات ہے، تو ان کے بارے میں یہ
 کہنا ناممکن ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالی کی محبت نہیں ہے، البتہ یہ کہا جاسکتا
ہے کہ اللہ تعالی سے ان کی محبت ناقص ہے، اور اسی نقص و کمی کے بنیاد پر ان کے
ساتھ معاملہ کیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اگر تم لوگ گناہ
 نہ کرتے، تو اللہ تعالی کسی دوسری قوم کو پیدا کرتے، جو گناہ کرتی، اور اللہ تعالی
ان کی مغفرت کرتے(اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے)
 

3-اللہ تعالی کی محبت اس فطری محبت کے منافی نہیں ہے، جس کی طرف انسانی نفس

مائل ہوتا ہے، جیسے کھانے، پینے اور عورتوں وغیرہ کی محبت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:میرے لئے دنیا کی چیزوں میں عورت اور حلال و پاک مال کو محبوب بنایا
گیا( اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے)
 

تو معلوم یہ ہوا کہ دنیا میں کچھ ایسی چیزیں ہیں، جن سے محبت کرنا شرک نہیں

ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے محبت کی ہے، اور اسی لئے انسان کے
لئے یہ جائز ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں سے محبت کرے، بشرطیکہ وہ حرام نہ ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی کا سب سے زیادہ پسندیدہ
عمل یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے کسی سے محبت کی جائے ،اور اسی کے لئے کسی سے نفرت
کی جائے۔( اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔)
 

4- جو شخص کسی انسان سے اس قدر محبت کرے، جیساکہ اللہ تعالی سے محبت کی جاتی

ہے، تو وہ مشرک ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:{بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ
کے شریک اوروں کو ٹھراکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے۔
اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں، کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ
اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالی
سخت عذاب دینے والا ہے(تو ہرگز شرک نہ کرتے) }(البقرۃ: 165)
 

اس آیت کریمہ میں اس شخص کے حق میں سخت وعید آئی ہے، جو عبادت و عظمت کے باب

میں کسی انسان کو اللہ تعالی کے مساوی مانے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{آپ
کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں
اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم
ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے
رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ
تعالی اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ }(التوبۃ:
 24)
 

اس آیت میں اس شخص کے حق میں سخت وعید آئی ہے، جس کی نظر میں یہ آٹھ امور اللہ

تعالی کی محبت سے زیادہ عزیز ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں
ہوسکتا، جب تک کہ وہ مجھے اپنی اولاد، والدین اور سارے لوگوں سے زیادہ اپنا محبوب
نہ بنالے( اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)
 

5-مومنوں کے بجائے مشرکوں سے محبت اور ان سے دوستی کرنا اللہ تعالی کی ذات سے

محبت کے منافی ہے، کیونکہ مشرک شرک میں مبتلا ہے، اور اس کا مذہب اسلام نہیں ہے۔
چنانچہ اللہ کے لئے محبت کرنا اور اسی کے لئے نفرت رکھنا ایمان کے اصولوں میں سب
سے زیادہ اہم اصول ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{مومنوں کو چاہئے کہ ایمان
والوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں، اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالی
کی کسی بھی حمایت میں نہیں، مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو، اور
 اللہ تعالی ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔ }( آلِ عمران: 28)
 

اللہ تعالی نے مومنوں کو کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کیا، اوربڑی تاکید

کے ساتھ یہ بیان کیا کہ جو ان سے دوستی کرتا ہے، تو وہ کسی بھی طرح سے اللہ تعالی
کی ولایت و ذمہ داری سے خارج ہے؛ کیونکہ محبوب سے دوستی کرنا اور اس کے دشمن سے
بھی دوستی کرنا یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے منافی ہیں:{مگر یہ کہ ان کے
شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو۔ }(آلِ عمران: 28)
 

اللہ تعالی نے کافروں سے دوستی کرنے کی اس وقت چھوٹ دی ہے، جبکہ مومن کو اس

بات کا خوف ہو کہ کافر دوستی کے بنا ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریں گے، تو اس
جیسی حالت میں ظاہری طور پر ان کے ساتھ میل ملاپ رکھنا جائز ہوگا، لیکن شرط یہ
 ہوگی کہ دل ایمان سے مطمئن ہو، اور دل میں کفر سے کراہت پائی جاتی ہو، جیساکہ اللہ
 تعالی فرماتے ہیں:{ بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر
برقرار ہو۔ }(النحل: 106)
 

محبت کی روشنی اور چمک:

اللہ تعالی کی ذات سے محبت کی علامت یہ ہے کہ زبان ہمیشہ اس کے ذکر سے تَر
رہے، اور دل میں ہمیشہ اس سے ملنے کی رغبت ہو، کیونکہ اصول ہے کہ جو جس چیز سے
محبت کرتا ہے، اس کو وہ بکثرت یاد کرتا ہے، اور اس سے ملاقات کا شوقین رہتا ہے۔
 

ربیع بن انس

 

جب ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیوی زندگی اور اللہ تعالی سے ملاقات

کے درمیان اختیار دیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بلکہ مجھے تو
رفیقِ اعلی سے ملنا ہے ( اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے)
 

چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی محبت، اور اس سے ملاقات

کی چاہت کو پسند فرمایا، بلکہ دنیا کی لذتوں، خواہشوں اور ساز و سامان پر محبتِ
 الہی کو ترحیح و فوقیت دی۔


متعلقہ: