اسماء حسنی اور صفاتِ عالیہ کی معرفت ساری چیزوں کی معرفت سے بہت بلند و عالی چیز ہے۔ اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہر ایک نام کی ایک خصوصی صفت ہے۔ اللہ تعالی کے اسماء تعریف و کمال کے اوصاف پر مشتمل ہے۔ اور ہر صفت کا ایک تقاضہ اور اس کا ایک عمل ہے، اور ہر عمل کا ایک اثر ہے، جو اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات کو اس کے اسماء سے، ان اسماء کو ان کے صفات و معانی سے، ان صفات کو اُن کے متقاضی اعمال سے، اور ان اعمال کو ان کے اثرات سے خالی سمجھنا محال و ناممکن ہے۔ یہ سب اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے آثار ہی میں شمار ہیں۔
اللہ تعالی کے اعمال حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں، اور اس کے بڑے اچھے اچھے نام ہیں۔ ان اسماء کو ان کے اثرات سے خالی گرداننا اللہ کی ذات میں ناممکن و محال بات ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اس شخص پر نکیر کی، جو اس کے حکم کو یا ثواب و عقاب کے معاملے کو اللہ تعالی کے لئے غیر ضروری سمجھا۔ کیونکہ اس طرح سے اس شخص نے اللہ تعالی کی طرف ایسی چیز منسوب کی جو اس کے شایانِ شان نہیں ہے، اور ایسی چیز منسوب کردی جس سے وہ پاک ہے، اور اس نے گویا یہ کہا ہو کہ یہ تو ایک بہت برا حکم ہے، جس کسی نے بھی اس پر یہ حکم لاگو کیا ہو۔ اور جو شخص اس جیسی چیزیں اللہ تعالی کی طرف منسوب کررہا ہے، حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی کماحقہ قدردانی نہیں کررہا ہے، اور نہ وہ اللہ تعالی کی اس کے شایانِ شان تعظیم کررہا ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے نبوت، رسول اور کتابوں کا انکار کرنے والے لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ:{اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدردانی کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔ } (الانعام: 91)
اللہ تعالی نے قیامت، اور عذاب و ثواب کا انکار کرنے والوں کے بارے میں کہا کہ:{اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالی کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی، اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ }(الزمر: 67)
نیز اللہ تعالی نے مختلف قسم کے لوگوں، جیسے نیکوکار اور بدکار، مومن اور کافر کے درمیان برابری کو جائز قرار دینے والوں کے بارے میں کہا کہ:{کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے کہ ان کا مرنا جینا یکساں ہوجائے، برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کررہے ہیں۔ }(الجاثیۃ: 21)
اللہ تعالی نے خبر دی کہ یہ ایک غلط و برا حکم ہے، جو اس کے شایانِ شان نہیں ہے، اس کے اسماء و صفات اس سے بَری ہیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:{کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤگے۔ }(المومنون: 115- 116)، اللہ تعالی اس جیسی بدگمانی سے بلند و بالا ہے، جو اس کے اسماء و صفات کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
اس کی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں، جن میں اللہ تعالی نے اپنے اسماء و صفات کی مخالف چیزوں کی اپنے آپ سے نفی کی ہے، اس لئے کہ اس سے صفاتِ الہیہ کو کمالات اور ان کے تقاضوں سے خالی سمجھنا لازم آتا ہے۔
اس ذات کا نام &"حمید مجید&" ہے، جو اس بات سے مانع ہے کہ وہ انسان کو بیکار و معطل بناکر چھوڑدے، نہ اس کو کسی چیز کا حکم دے اور نہ کسی چیز سے منع کرے، نہ اس کو اچھائی کا بدلہ دے اور نہ برائی پر سزا دے۔ اسی طرح اس کا نام &"حکیم&" ہے، جو ان چیزوں سے مانع ہے، نیز اللہ تعالی کے نام &"الملک&" کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اس ذات کا نام &"الحی&" ہے، جو اس بات سے مانع ہے کہ وہ کسی عمل سے عاجز ہو، بلکہ عمل ہی زندگی کی حقیقت ہے، چنانچہ ہر زندہ انسان سے اعمال سرزد ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی کا خالق و قیوم ہونا اس کی زندگی کے لوازمات و تقاضوں میں شمار ہے۔ اس کا نام &"السمیع البصیر&" ہے، جس کے لئے کسی دیکھی اور سنی جانے والی چیز کا ہونا لازم ہے۔ اس کا نام &"الخالق&" ہے، جس کے لئے کسی مخلوق کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا نام &"الرزاق&" کا بھی یہی حال ہے۔ اس کا نام &"الملک&" ہے، جو حکومت و بادشاہت، تصرف و تدبیر، دینے اور چھیننے، احسان و انصاف کرنے، اور ثواب و عقاب دینے کا متقاضی ہے۔ اور اس کے نام &"البر، المحسن، المعطی اور المنان&" اور اس جیسے دیگر سارے نام ان کے تقاضوں اور لوازمات کے متقاضی ہیں۔
اللہ تعالی کے نام &"الغفار، التواب، العفو&" ہیں، ان سب ناموں کے لئے ان کے متعلقات کا ہونا ضروری ہے، لہذا کسی ایسے گناہ کا ہونا ضروری ہے، جس کو معاف کیا جائے، توبہ کا ہونا ضروری ہے، جس کو وہ قبولیت سے نوازے، اور ایسی غلطیوں کا ہونا ضروری ہے، جس کو وہ درگذر کرے۔ اللہ تعالی کے نام &"الحکیم&" کے لئے کسی ایسے معاملے سے متعلق ہونا ضروری ہے، جس پر اس کا حکم لگایا جائے؛ کیونکہ ان ناموں کا اپنے مقتضیات پر مشتمل ہونا ایسے ہی ہے جیساکہ مخلوق کے لئے خالق کا ہونا، مرزوق کے لئے رازق کا ہونا، بندے کے لئے کسی معطی کا ہونا، اور بندے کے لئے کسی مانع کو ہونا ضروری ہے۔ اور اللہ تعالی کے یہ سارے نام اچھے ہیں۔
اللہ تعالی اپنی ذات، اور اپنے اسماء و صفات سے محبت کرتا ہے؛ وہ معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، مغفرت کو پسند کرتا ہے، توبہ کو پسند کرتا ہے، اور جب بندہ توبہ کرتا ہے، تو وہ ناقابلِ بیان حد تک خوش ہوتا ہے، اس سے درگذر کرتا ہے، اس کی توبہ قبول کرتا ہے، اور اس کو معافی کا مژدہ سناتا ہے۔
اللہ تعالی کی پاک ذات &"الحمید المجید&" ہے۔ اس کی پاکی اور بزرگی اپنے اپنے اثرات کے متقاضی ہے۔ اور ان دونوں کے اثرات یہ ہیں کہ لغزشوں کو معاف کیا جائے، غلطیوں سے درگذر کیا جائے، برائیوں پر چشم پوشی کی جائے، اور گناہوں سے مغفرت بخشی جائے، حالانکہ اللہ تعالی کو اپنا حق وصول کرنے پر پوری قدرت حاصل ہے، وہ جرم کی حقیقت، اور اس پر دی جانے والی سزا سے بھی باخبر ہے۔ باوجود اس کے اللہ تعالی کا علم رکھتے ہوئے درگذر کرنا، اور قدرت رکھتے ہوئے معاف کرنا، محض اس کی کمالِ عزت اور کمالِ حکمت پر مبنی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی زبانی فرماتے ہیں:{اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرمادے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔ }(المائدۃ: 118)
یعنی: اے پاک ذات تیری طرف سے ملنے والی معافی محض تیرے کمالِ قدرت اور کمالِ حکمت کی بناء پر ہے، تو اس شخص کی طرح نہیں ہے جو کمزور ہونے کی وجہ سے معاف کرتا ہے، اور نہ تو اس شخص کی طرح ہے، جو حقوق کی مقدار سے ناواقفیت کی بناء پر درگذر کرتا ہے، بلکہ تو اپنے حقوق سے زیادہ واقف ہے، اپنا حق واپس لینے پر قادر ہے، اور حقوق کی بازیابی میں تو حکمت والا ہے۔
جو انسان اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا اس دنیا اور دنیوی معاملات پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں غور و فکر سے کام لے گا، تو اس کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ بندے کے ہاتھوں ہونے والے یہ گناہ بھی اللہ تعالی کے اسماء و صفات اور اس کے اعمال کے کمالات میں شامل ہیں۔ نیز گناہ کے مقاصد بھی اللہ تعالی کی بزرگی و بڑائی کے متقاضی ہیں، جس طرح سے کہ یہ اس کی ربوبیت و الوہیت کے بھی عین مطابق ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی کے ہر فیصلے اور ہر حکم میں اعلی درجے کی حکمت، کھلی نشانیاں، بندوں کی اپنے رب کے اسماء و صفات سے واقفیت، اِن کے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا کرنے کا داعیہ، اس کا ذکر و شکر، اور اس کے اسماء حسنی سے اس کی بندگی کا پیغام ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کے ہر نام کے ساتھ ایک مخصوص علمی و عملی عبادت وابستہ ہے۔ اور لوگوں میں سب سے با کمال عبادت اس شخص کی ہے جو اللہ تعالی کے سارے ناموں، اور اپنی اطلاع کے مطابق ساری صفات پر ایمان رکھتے ہوئے عبادت کرتا ہو؛ لہذا ایک نام کی بندگی اس کو دوسرے نام کی بندگی سے مانع نہیں ہوتی ہے۔ جیساکہ وہ شخص جس کو &"القدیر&" نام کی بندگی &"الحلیم&" یا &"الرحیم&" کی بندگی سے مانع ہو، یا &"المعطی&" کی بندگی &"المانع&" کی بندگی سے مانع ہو، یا &"الرحیم&"، یا &"العفو&"، یا &"الغفور&" کی بندگی &"المنتقم&" کی بندگی سے مانع ہو۔
اللہ تعالی فرماتےہیں:{اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں، سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو۔ } (الاعراف: 180)
ان ناموں کے ذریعے کی جانے والی دعاء اپنی ضرورت پر، اللہ تعالی کی تعریف پر اور اس کی بندگی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی خود اپنے بندوں کو اس بات کی ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس کے ناموں اور صفات سے اس کو پہچانیں، ان ناموں کے ذریعے اس کی تعریف بیان کریں، اور ان ناموں کی بندگی سے اپنا اپنا حصہ حاصل کرلیں۔
اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے، اور نہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کے مشابہ ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیش اپنے اسماء و صفات کے ساتھ باقی ہے۔اللہ تعالی اپنے اسماء و صفات کے اثرات و تقاضوں سے محبت کرتا ہے؛ چنانچہ وہ علیم ہے، لہذا ہر علم رکھنے والے کو پسند کرتا ہے، وہ سخی و داتا ہے، لہذا ہر سخاوت کرنے والے کو پسند کرتا ہے، وہ طاق ہے، لہذا طاق عدد کو پسند کرتا ہے، خوبصورت ہے، لہذا خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، معاف کرنے والا ہے، لہذا معافی کو اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، حیاء رکھتا ہے، لہذا حیاء اور حیاء کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، نیک ہے، لہذا نیکوکاروں کو پسند کرتا ہے۔ نوازنے والا ہے، لہذا شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ بردبار ہے، لہذا بردباروں کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے توبہ و مغفرت، اور معافی و نجات سے اپنی محبت کی وجہ سے مخلوق کو پیدا کیا ہے، جو اس سے معافی مانگیں، توبہ کریں، اور اس سے معافی کے طلبگار رہیں۔