دوم: لوگوں پر پڑنے والے عام اثرات:
جس طرح سے کہ وحدانیت اور ایمان کے اثرات مومن کی شخصی زندگی پر پڑتے ہیں، بالکل اسی طرح سے مومن کے لوگوں کے ساتھ معاملات اور اس کے اخلاق میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مجھے اچھے اخلاق کی تکیمل کے لئے بھیجا گیا ہے»[اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔]
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان اور اخلاق کو ایک دوسرے سے مربوط رکھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: «اس شخص کا ایمان سب سے زیادہ مکمل ہے، جس کے اخلاق اچھے ہوں اور وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ نرم رویہ رکھنے والا ہو»
[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
توحید پرست مسلمان جو ہمیشہ اللہ تعالی کے حاضر و ناظر ہونے، اور اللہ تعالی کا بندوں کو اپنے احاطہ رحمت میں رکھنے کا یقین رکھتا ہے، وہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں لوگوں کے ساتھ زیادہ رحم و کرم اور نرمی کرنے والا ہوتا ہے:
گھر اور خاندان والوں کے ساتھ:
1. والدین کے ساتھ حسنِ سلوک: توحید پرست مسلمان سب سے زیادہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کی فکر رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں وحدانیت اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو ایک دوسرے سے مربوط بیان کیا ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
{اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سواء کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعاء کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔}
[بنی اسرائیل: 23 - 25]
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں: {ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے، ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانئے۔ تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا۔}[العنکبوت: 8]
2. اولاد کے ساتھ حسنِ سلوک:
حالانکہ اولاد دنیا کی زیب و زینت کا ساماں ہے، اور اللہ تعالی نے اولاد کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ: {مال و اولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے۔}[الکھف: 46]
پھر بھی مومن کے دل میں پائے جانے والی توحید اس کو اپنے اولاد کی تربیت کا پابند بناتی ہے۔ اور اللہ تعالی نے بھی مومنوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچائیں؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اے ایمان والے تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔} [التحریم: 6]
اولاد کی تربیت کو ہر ذمہ دار شخص کے حق میں واجب قرار دیا گیا ہے؛ جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے، اور تم میں ہر ایک سے اپنے ماتحت رہنے والے لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، مرد اپنے اہلِ خانہ کا نگہبان ہے، اور اس سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے، اور اس سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ خادم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اور اس سے اپنے ماتحت آنے والی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا »[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
1. بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک:
توحید پرست مسلمان اپنی بیوی کے حقوق ادا کرتا ہے، اپنی بیوی کے تئیں وہ اللہ تعالی کا خوف رکھتا ہے، اس کی حقوق کی ادائیگی اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے میں اللہ تعالی کو وہ ہمیشہ حاضر و ناظر سمجھتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اور عورتوں پر ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ۔}
[البقرۃ: 228]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں تم سب سے زیادہ اچھا ہوں ۔ ۔»[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
اور جب کچھ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر پہنچیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہو»[اس حدیث کو امام ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]
2. شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک:
مومن عورت کے دل میں توحید اللہ تعالی کا خوف پیدا کرتی ہے، جو اپنے شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں اس کی معاون ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنے پروردگار کی جنت کی حقدار بن جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: «جب عورت پانچ فرض نمازیں ادا کرلے، رمضان کے روزے رکھ لے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلے، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے، تو اس سے کہا جائے گا کہ تم جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہوجاؤ"۔ »[اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
اللہ تعالی نے عورت کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر سے ایسی چیزوں کا مطالبہ نہ کرے، جو اس کی حیثیت سے باہر ہو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہئے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہئے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے [اپنی حسب حیثیت] دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے۔ اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کردے گا۔}[الطلاق: 7]
اور بنا کسی تکلیف و مشقت کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
« جس کسی عورت نے بنا کسی سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے»[اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک:
صلہ رحمی اور پڑوسیوں کے حقوق:
اللہ تعالی نے توحید پرست مسلمانوں کے لئے وحدانیت اور اپنے رشتے داروں، قریبی لوگوں اور پڑوسیوں کے ساتھ ہونے والے معاملات کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں یقینا اللہ تعالی تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔}[النساء: 36
نیز اللہ تعالی نے فرمایا: {پس قرابت دار کو، مسکین کو، مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالی کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں، ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔}[الروم: 38]
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: «جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ ۔ ۔»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
ملازمت و پیشہ اور سارے لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک:
اللہ تعالی کی وحدانیت پر قائم شخص کے دل میں ایمان اچھے اخلاق اپنانے، لوگوں کی خیرخواہی کرنے اور معاملات میں سچائی پر چلنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی قربت حاصل کرنے والے اعمال میں یہ چیزیں سب سے زیادہ افضل ہیں:
1. حسنِ اخلاق:
اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: {اور بیشک تو بہت بڑے [عمدہ] اخلاق پر ہے۔}[القلم: 4]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «جنت میں داخل کرنے والے اسباب میں سب سے اہم سبب اللہ کا خوف اور حسنِ اخلاق ہے»[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے دربار میں محبوب لوگ وہ ہیں، جو دیگر لوگوں کے لئے زیادہ نفع کا باعث ہوں، اور اعمال میں سب سے محبوب وہ خوشی ہے، جو آپ کسی مسلمان کو فراہم کرتے ہو، یا اس سے کوئی غم دور کرتے ہو، یا اس کا قرض ادا کردیتے ہو، یا آپ اس کی بھوک مٹاتے ہو، اور میرے نزدیک اس مسجد -مسجدِ نبوی- میں ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب عمل یہ ہے کہ میں اپنے کسی بھائی کی ضرورت پورا کرنے کے لئے اس کا ساتھ دوں ۔ ۔ ۔»
[اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔]
2. سچائی و صدقِ معاملہ؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں: {اے ایمان والو اللہ تعالی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔}[التوبۃ: 119]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: « یقیناً سچائی نیکیوں کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکیاں جنت کی طرف لے جاتی ہیں۔ انسان سچ بولتا ہے، یہاں تک کہ وہ سچّے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور یقیناً جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور انسان جھوٹ بولتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے دربار میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے»[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بھی وہ منہ کھولتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے، اور جب بھی کوئی وعدہ کرتا ہے، تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور جب بھی کوئی امانت اس کے پاس رکھی جاتی ہے، تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے»
[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
3. خیرخواہی اور دھوکہ دہی سے اجتناب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: « جس کسی بندے کو اللہ تعالی نے اپنی قوم کا نگہبان بنایا ہو، اور جب بھی اس کو موت آنی ہو، اس وقت وہ اس حال میں مرجائے کہ وہ اپنی قوم کے حق میں دھوکہ باز رہا ہو، تو اللہ تعالی اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر غلّہ کے ڈھیر کے پاس سے ہوا، تو آپ نے اس ڈھیر میں اپنا ہاتھ ڈالا، اور آپ کی انگلیاں تَر ہوگئیں، تو آپ نے فرمایا: «اے غلّے کے مالک یہ کیا ہے؟ مالک نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بارش کا پانی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم نے اس تَر حصے کو غلّے کے اوپر کیوں نہیں رکھا، تاکہ گاہک اس کو دیکھ لیں۔ - یاد رکھو- جو دھوکہ دیتا ہو، وہ ہم امتِ محمدیہ میں شمار نہیں ہوتا ہے»
[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]