1-یقینا اللہ تعالی کے سارے نام اچھے ہیں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:{اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں۔ } (الاعراف: 180)
ہمیں اللہ تعالی کی ذات کی معرفت اس کی بلند ذات سے حاصل ہوئی ہے، تاکہ ہم اس کی بندگی کریں، اس کی تعظیم کریں، اس سے محبت رکھیں، اس کا ڈر اپنے اندر پیدا کریں، اور اس سے آس لگائے بیٹھیں۔
2-اللہ تعالی کے اسماء و صفات کو صرف دو مصدروں سے ثابت کیا جائے گا، اس کے علاوہ کوئی اور تیسرا مصدر قابلِ قبول نہیں ہے، وہ دو مصدر اللہ تعالی کی کتاب قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔ ان دوںوں کے علاوہ کوئی اور مصدر اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے لئے ثبوت نہیں ہوسکتا ہے، لہذا ہم وہی اسماء و صفات اللہ تعالی کے لئے مانیں گے، جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیے ہیں، اور وہی اسماء و صفات کی اللہ تعالی کی ذات سے نفی کریں گے، جس کی نفی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، نیز ان ثابت شدہ اسماء و صفات کے اضداد کی مکمل طور پر نفی کریں گے۔ وہ صفات جن کے بارے میں ثبوت اور نفی کا کوئی حکم نہ ملا ہو، تو ایسی صفات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی، چنانچہ ان جیسی صفات کا نہ انکار کیا جائے گا، اور نہ ان کو ثابت کیا جائے گا، کیونکہ ان کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ملا ہے۔ اور جہاں تک ان صفات کے معانی کا سوال ہے، تو اس بارے میں تھوڑی سی تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگر ان صفات سے اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ ایسی حق و سچی بات جوڑی جائے، جو اس کے شایانِ شان ہو، تو ایسی صفات مقبول سمجھی جائیں گی، اور اگر ان کے معانی اللہ تعالی کی ذات کے شایانِ شان نہ ہو، تو پھر ان صفات کا انکار فرض ہوگا۔
3-اللہ تعالی کی صفات میں صفتِ کلام کا درجہ بالکل اللہ تعالی کی ذات میں صفتِ کلام کی طرح ہے، اور چونکہ ہمیں اللہ تعالی کی ذات کی کیفیت کا علم نہیں ہے، تو یقینی طور پر ہمیں اس کے صفاتِ حسنی کی کیفیت کا بھی علم نہیں ہوگا۔ لیکن کسی قسم کی تبدیلی، صفت بیانی، تشبیہ اور ان صفات کو ناکارہ سمجھے بنا ان پر ہم پورا یقین رکھتے ہیں، اور ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔
4-اللہ تعالی کے اسماء و صفات میں سے ہر ایک کے لئے اس کے حقیقی معنی ہیں، اس میں مجازی یا کوئی اور معنی کا احتمال نہیں ہے۔ یہ معانی اللہ تعالی کی ذات اور اس میں پائے جانے والی صفات پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسے القادر، العلیم، الحکیم، السمیع، البصیر۔ یہ سارے نام اللہ تعالی کی ذات پر، اور اس میں پائے جانے والے علم و قدرت، حکمت و سماعت اور بصارت جیسی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔
5-بنا کسی صفت کو ناکارہ بنائے اللہ تعالی کی ذات کو عیوب سے پاک سمجھا جائے، چنانچہ اللہ تعالی کی ذات سے عیوب کی نفی اجمالی طور پر ہر عیب سے نفی کے مماثل ہے، اور اللہ تعالی کے لئے صفاتِ کمال کا ثبوت تفصیلی طور پر ہر صفت کو شامل ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ }(الشوریٰ: 11)
6-اللہ تعالی کے اسماء پر ایمان لانے کے لئے جس طرح اللہ تعالی کا نام اپنے اندر پائی جانے والی صفت پر ایمان رکھنے کا متقاضی ہے، اسی طرح اس نام سے متعلقہ اثرات پر بھی ایمان کا تقاضہ کرتا ہے، مثال کے طور پر اللہ تعالی کا نام &"رحیم&" ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کی ایک صفت رحمت ہے، چنانچہ وہ اپنی صفتِ رحمت کی بناء پر اپنے بندوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے۔
1-اسماء حسنی متعین اعداد میں منحصر نہیں ہیں، حدیث پاک میں آیا ہے کہ:&"۔ ۔ ۔میں آپ سے آپ کے ہر اس نام کے صدقے مانگتا ہوں، جو آپ نے اپنے لئے اختیار کیا ہے، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا اپنے کتاب میں نازل کیا ہے، یا اپنے علمِ غیب میں اس کو اپنے لئے خاص رکھا ہے ۔ ۔ ۔ &"(اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے)
2-اسماء حسنی میں سے کچھ ایسے نام ہیں، جو صرف اللہ تعالی کی ذات کے لئے ہی مخصوص ہیں، ان ناموں میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، اور نہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو ان ناموں سے پکارا جاسکتا ہے، جیسے اللہ، الرحمٰن۔ اور بعض نام ایسے ہیں، جو اللہ تعالی کے علاوہ اوروں کو بھی اس نام سے پکارا جاسکتا ہے، اگرچیکہ اللہ تعالی کے نام اور اس کی صفات سب سے زیادہ کامل و مکمل ہوتی ہیں۔
3-اللہ تعالی کے ناموں میں سے ہر نام کی ایک صفت اخذ کی جاسکتی ہے، چنانچہ ہر نام ایک صفت پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن صفات سے کوئی نام اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے، جیساکہ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کو غصہ آتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اللہ تعالی &"غضوب&" ہیں۔ اللہ تعالی کی ذات بہت ہی زیادہ بلند و بالا ہے۔