اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:&"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اللہ کے علاوہ کسی اور ذات کے معبود نہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینا، نماز پڑھنا، زکاۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:&"سب سے بہتر بات جو میں نے اور مجھ سے پہلے والے نبیوں نے کہی ہے، وہ یہ ہے: &"ایک اللہ کے سواء کوئی اور معبود برحق نہیں ہے، اور نہ اللہ کا کوئی اور شریک ہے، اسی کی بادشاہت ہے، ساری بڑائی اسی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے&"(اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے)
&"لا الہ الا اللہ&"کے اساس پر اللہ تعالی نے جنت کو مزین و آراستہ کیا ہے، جہنم کو بھڑکایا ہے، اور نیکی و بدی کا بازار لگایا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:&"اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام جب حالتِ نزع میں تھے، اس وقت آپ نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تمہیں &"لا الہ الا اللہ&" کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم دیتا ہوں۔ کیونکہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اگر ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں، اور &"لا الہ الا اللہ&" ایک دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے، تو کلمہ توحید کا پلڑا بھاری ہوجائے گا، اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک پیچیدہ معمّہ ہوتے، تو کلمہ توحید اس کا حل ضرور پیش کردے گا&"(امام بخاری نے اپنی کتاب &"الادب المفرد&" میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے)
1-&"لا الہ الا اللہ&"کے مفہوم کا علم رکھنا: اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلمہ توحید پڑھنے والا یہ جان لے کہ اس کا مفہوم کیا ہے، اور یہ کلمہ اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک سے خدائی کی نفی، اور اسی کے لئے الوہیت کو ثابت کرنے کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{سو (اے نبی) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں۔ }(محمد: 19)
2-کامل یقین: اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلمہ توحید پڑھنے والے شخص کے دل میں اس کلمے کے معنی یا مفہوم کے بارے میں کوئی شک نہ ہو، اس لئے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں (اپنے دعوائے ایمان میں) یہ سچے اور راست گو ہیں۔}(الحجرات: 15)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:&"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ ان دو باتوں میں شک نہ کرنے والا بندہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ وہ جنت کا مستحق رہے گا۔&" (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)
3-کلمہ توحید کے تقاضوں کو زبان و دل سے قبول کرنا: قبول کرنے سے مراد انکار و ہٹ دھرمی کا مخالف معنی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{ہم گنہگاروں کے ساتھ اسی طرح کیا کرتے ہیں۔ یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے۔ }(الصافات: 34-35)
حقیقت میں غلامی کا مطلب دلوں کی غلامی ہے، اور جس چیز نے دل کو اپنا غلام بنالیا، تو دل اس کا غلام شمار ہوتا ہے۔4-کلمہ توحید کے مفہوم کی اتباع کرنا: اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ ان احکامات پر عمل کرے، جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، اور ان چیزوں سے باز رہے، جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور ہوبھی وہ نیکوکار تو یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا۔ }(لقمان: 22)
5-سچائی:اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلمہ توحید کو سچے دل کے ساتھ پڑھا جائے، اس طور پر کہ دل اور زبان دونوں اس کے مفہوم پر پورے طور سے متفق ہوں؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ وہ اللہ تعالی کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، مگر سمجھتے نہیں۔ }(البقرۃ: 8-9)
6-اخلاص:اخلاص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلمہ توحید کے اقرار سے بندہ اللہ تعالی کی خوشنودی کا جویا رہے؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{انہیں اس کے سواء کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں ابراھیمِ حنیف کے دین پر، اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں، یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔ }(البینۃ: 5)
7-اس کلمہ سے، اس کلمے کے تقاضوں پر عمل کرنے والوں سے، اس کی شرائط کی پابندی کرنے والوں سے محبت کرنا، اور کلمہ کے تقاضوں کی مخالف چیزوں سے بغض رکھنا؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اورروں کو ٹہراکر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے۔ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ }(البقرۃ: 165)
جیسے جیسے بندہ اللہ تعالی کی محبت میں آگے بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے اللہ تعالی کی بندگی، اور اس کے علاوہ دیگر معبودانِ باطل کے شکنجے سے آزادی میں بھی بڑھتا جاتا ہے۔لا الہ الا اللہ کا یہی مفہوم ہے، اور یہی اس کی شرائط ہیں، جو اللہ تعالی کے دربار میں نجات کا سبب بنتی ہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے یہ سوال کیا کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ: جو لا الہ الا اللہ کہے گا، وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، تو امام حسن بصری نے جواباً کہا: جو شخص لا الہ الا اللہ کہے، اس کے فرائض کو بجالائے، اور اس کے حقوق کو ادا کرے، وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔
لا الہ الا اللہ کے صرف زبانی دعوے سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے، جب تک کہ کہنے والا شخص اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرلے، اور اس کی شرائط کی پابندی نہ کرلے۔ اور جو صرف زبان سے کلمہ کا اقرار کرے، اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرے ، تو صرف زبانی اقرار اس وقت تک سودمند نہیں ہے، جب تک کہ وہ اپنے اقرار کو اعمال کے ساتھ مربوط نہ کرلے۔
1-شرک، یہاں پر شرک سے مراد:شرکِ اکبر ہے، جو انسان کو دین سے خارج کردیتا ہے، اور اسی شرک کے ساتھ مرنے والے کی اللہ تعالی کبھی مغفرت نہیں کرتے ہیں۔ شرکِ اکبر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے حقوق، جیسے معبود اور خدا ہونے میں کسی اور کو اس کا شریک ماننا، اور اسی طرح اللہ تعالی کے اسماء و صفات میں کسی کو اس کا ساجھے دار سمجھنا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:{اسے اللہ تعالی قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرمادیتا ہے، اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ }(النساء: 116 )
نیز اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا۔ بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہوجا۔ }(الزمر: 65-66)
2-جو شخص اپنے اور اللہ تعالی کے درمیان دیگر لوگوں کو دعاء کے لئے واسطہ بناتا ہے، اور ان سے سفارش کا طلبگار رہتا ہے، ان پر بھروسہ کرتا ہے، اور عبادت و بندگی کے ذریعے ان سے قربت حاصل کرتا ہے، تو یقیناً ایسا شخص کلمہ لا الہ الا اللہ کے مفہوم کی مخالفت کررہا ہے۔
3-جو شخص اللہ تعالی کی ذات کا کسی کو شریک ماننے والوں کو کافر نہیں سمجھتا ہے، یا ان کے کافر ہونے میں شک کرتا ہے، یا ان کے طریقہ کار کو صحیح سمجھتا ہے، تو یقینا اس شخص نے کفر کا ارتکاب کیا ہے، اس لئے کہ وہ اپنے اس عقیدے کی وجہ سے اپنے اُس اسلام کے تئیں شک میں مبتلا ہے، جس کے سواء اللہ تعالی کسی دین یا مذہب کو پسند ہی نہیں کرتا ہے۔ جو انسان اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے والے، یا غیراللہ کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی عبادت کرنے والے کے کفر میں شک کرے، یا یہودی، عیسائی اور بت پرستوں کے کفر میں شک کرے، یا ان کے جہنمی ہونے میں شک کرے، یا مشرکوں کے مذہب یا ان کے کسی ایسے عمل کو صحیح سمجھے، جس کے کفر ہونے پر صریح دلیل موجود ہو، تو ایسا شخص یقیناً کافر ہے۔
4-جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے رسول کی سنتوں کے علاوہ کوئی اور طریقہ کامل و مکمل ہے، اور رسول کے حکم سے غیروں کا حکم زیادہ اچھا ہے، تو یقیناً ایسا شخص کافر ہے۔ مثال کے طور پر وہ شخص جو دنیوی قانون یا خاندانی رسم و رواج کو شرعی حکم پر فوقیت دیتا ہو، یا خاندانی تقالید کے مطابق عمل کو جائز قرار دیتا ہو، یا ان کو شرعی احکامات کے مساوی سمجھتا ہو، یہ سب چیزیں اللہ تعالی کی ذات کا انکار کرنے کے مترادف ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:{جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ }(المائدۃ: 44)
نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:{سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ }(النساء: 65)
5-جو شخص اللہ کے رسول کے لائے ہوئے احکامات سے بغض رکھے، چاہے وہ اس پر عمل بھی کرتا ہو، جیسے کوئی شخص نماز سے بغض رکھے، چاہے وہ نماز پڑھتا ہی کیوں نہ ہو، یقیناً ایسا شخص کافر ہے؛ اس لئے کہ اس نے اللہ تعالی کے حکم سے نفرت کی ہے۔ اور &"لا الہ الا اللہ&" کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے، اس سے محبت کی جائے۔ اور جو شخص رسول کے لائے ہوئے پیغامات سے بغض و نفرت رکھے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی کے مفہوم پر عمل پیرا نہیں رہا، اس لئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے سامنے سرِتسلیم خم کیا جائے، اور آپ کی سنتوں کو انشراحِ صدر کے ساتھ قبول کیا جائے۔
6-جو شخص اللہ کے دین میں سے کسی بھی چیز کا، یا ثواب و عذاب کا مذاق اڑائے، یقیناً وہ کفر کا مرتکب ہے؛ اس لئے کہ اس نے واجبِ تعظیم دین، اور واجبِ تعظیم رسول کی تعظیم نہیں کی ہے، اور اس لئے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں پر جو ایمان والے ہی تھے، پھر بھی اُن پر کفر کا حکم لگایا، کیونکہ انہوں نے اللہ کے رسول اور ان کے صحابہ کا مذاق اڑایا تھا، اور یہ کہنے لگے تھے کہ ہم نے اپنے ان قاریوں کی طرح کسی کو اپنے پیٹوں کا زیادہ خیال رکھنے والے، زیادہ جھوٹ بولنے والے، اور جنگ کی گھڑی میں زیادہ کمزور نہیں دیکھا، تو اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں یہ فرمایا کہ:{اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں؟ تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے ہو۔ }(التوبۃ: 65-66)
اللہ تعالی نے ان لوگوں کے کافر ہونے کا حکم صادر کیا،حالانکہ وہ لوگ اس سے پہلے مومن تھے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:{تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے ہو۔ }(التوبۃ: 66)
اللہ تعالی نے ان لوگوں کو اپنی یہ بات کہنے سے پہلے ایمان والا قرار دیا، اور اگرچہ کہ ان لوگوں نے کھیل کود اور مذاق کے طور پر یہ بات کہی تھی، اور ان کا مقصد یہ تھا کہ ان جیسی باتوں سے وہ سفر میں ہونے والی تکالیف کو محسوس نہ کر پائیں، پھر بھی اللہ تعالی نے ان پر کافر ہونے کا حکم لگایا۔
7-جادو:جادو: تعویذ، پلیتے، اور گلے میں ڈالے جانے والے ہاروں کا نام ہے، جو دلوں اور جسموں پر اثرانداز ہوتی ہیں، نیز قتل و غارتگیری، اور میاں بیوی کے درمیان تفرقہ کا سبب بنتی ہے۔ جادو کفریہ عمل ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اور وہ بالیقین یہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ }(البقرۃ: 102)
یعنی: حصہ۔ اللہ تعالی نے اس سے پہلے یہ ارشاد فرمایا کہ:{وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر۔ }(البقرۃ: 102)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:&"ہلاک کرنے والی سات چیزوں سے اجتناب کرو، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا ناحق مال کھانا، جنگ کی گھڑی میں پیٹھ پھیر کر میدان سے بھاگ جانا، اور مومن، پاکباز و معصوم خواتین پر تہمت لگانا&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:&"جو کوئی گھاٹی باندھے، اور اس میں پھونک مارے، تو یہ شخص جادو کا مرتکب ہے، اور جو جادو کا ارتکاب کرے، وہ یقیناً شرک کا مرتکب ہوگا۔ اور جو شخص کسی چیز سے اپنے آپ کو وابستہ رکھے، وہی چیز اس کی ذمہ دار رہے گی&"(اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے)
نیز کہانت، اور زمینی حادثوں پر آسمانی سیاروں سے استفادہ کرنا جادو میں شمار ہے، اس لئے کہ امام ابوداود نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:&"ستاروں سے اپنا علم اقتباس کرنے والا شخص جادو کا ایک شعبہ لینے والے شخص کے برابر ہے، اور جو جس قدر اپنے علم کا ستاروں پر انحصار رکھتا ہے، وہ اسی قدر جادو میں ملوث مانا جائے گا&"(اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے)
اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ:{اور جادوگر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوگا۔ }(طٰہٰ: 69)
اور آپس میں لوگوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے اور ایک دوسرے کا دوست بنانے کا عمل بھی جادو میں شامل ہے، جیسے دو محبت کرنے والوں کے درمیان دوری پیدا کی جائے، اور دو عام لوگوں کے درمیان محبت پیدا کی جائے۔
علمِ نافع وہ ہے، جو بندے کو اللہ کی وحدانیت پر، اور اس کے معاون امور جیسے انسانیت کی خدمت اور اچھا سلوک کرنے پر ابھارے۔ اور نقصان دہ علم وہ ہے جو بندے کو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانے پر، انسانیت کے ساتھ برا سلوک کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے پر اکسائے۔8-مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کے ساتھ باہمی تعاون و شراکت، اور اسی کو اللہ تعالی کے اس فرمان:{تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ }(المائدۃ: 51)
میں &"ولی بننے سے&" تعبیر کیا گیا ہے۔ ولی و ذمہ دار بننا دوست بنانے سے ہٹکر ایک الگ معاملہ ہے؛ کیونکہ دوستی کرنے سے مراد یہاں پر جھکاؤ و میلانِ دل، اور صحبت و محبت رکھنا ہے، جوکہ گناہِ کبیرہ تو ہے، لیکن کفر میں شمار نہیں ہے۔ لیکن ولی و ذمہ دار بننے سے مراد مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد کرنا، اور مسلمانوں کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر دھوکہ دہی کرنا ہے، جیساکہ منافقوں کا معاملہ تھا، لہذا دنیوی معاملات میں مشرکوں کے ولی بننے والے شخص کا معاملہ بڑا نازک و پُر خطر ہے۔
9-جو شخص یہ گمان رکھے کہ کسی بھی انسان کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے نکلنے کی گنجائش ہے، تو ایسا شخص کافر ہے؛ اس لئے کہ جس اسلامی شریعت کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے، وہ ساری شریعتوں پر غالب، اور ساری شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے، اور اللہ تعالی ان ہی اعمال کو قبول کرتا ہے، جو اسلامی شریعت میں بتائے گئے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{بے شک اللہ تعالی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ }(آلِ عمران: 19)
اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{جو شخص اس کے سواء کوئی اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پاںے والوں میں ہوگا۔ }(آلِ عمران: 85)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ }(آلِ عمران: 31-32)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:&"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے: اس امت کے جس کسی فرد نے، چاہے وہ یہودی ہو، یا عیسائی، میرے بارے میں سن رکھا ہو، پھر اس کی موت ہوگئی ہو، اور وہ میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہ لایا ہو، تو وہ جہنمی ہوگا&"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)
اس جیسے امور کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بعض ناخواندہ لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ امتِ محمدیہ میں سے کچھ – ان کے عقیدے کے مطابق – اولیاء ہوتے ہیں۔ یہ خیال بھی عین کفر اور خارج از اسلام کرنے والا عمل ہے۔
دل جب صاف سیدھا نہ ہو، اللہ تعالی سے خالص لَو لگانے والا، اور اللہ کی ذات کے علاوہ دیگر لوگوں سے کنارہ کشی کرنے والا نہ ہو، تو اس دل میں شرک گھر کرجاتا ہے۔10-جو شخص اجمالی طور پر اللہ تعالی کے دین سے کنارہ کشی اختیار کرے، اور اس کے احکامات پر عمل نہ کرے، تو یقیناً ایسا شخص کافر ہے۔ اور جو شخص مکمل طور پر دینِ اسلام پر عمل کرنے سے گریز کرے، اور اپنے کفریہ اعمال پر اکتفاء کرلے، اور جب اس شخص کو اسلام کی دعوت دی جائے، یا اس کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف بلایا جائے، اور وہ انکار کردے، یا علم تو حاصل کرلے، پھر اس کے مطابق عمل کرنے اور اس کو قبول کرنے سے اعراض کرے، تو یقیناً ایسا شخص کافر ہے۔
علم وہ درخت ہے، جو اچھے اخلاق، نیک عمل اور عمدہ صفات پیدا کرتا ہے۔ اور جہالت وہ درخت ہے، جو برے اخلاق اور بدکردار کی پیداوار کا سبب ہوتا ہے۔یہ وہ اسلام مخالف امور ہیں، جن میں سنجیدگی رکھنے والا، مذاق کرنے والا، اور خوف رکھنے والا سب برابر ہیں، بس شرط یہ ہے کہ لوگ جان بوجھ کر علم رکھتے ہوئے بھی ان مخالفِ اسلام امور میں پڑیں۔ ہاں وہ شخص جس کو مجبور کیا گیا ہو، تو وہ صرف اپنی زبان سے ان مخالفِ اسلام امور کا اقرار کرے، اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:{بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو، مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں۔ }(النحل: 106)
جس شخص کو کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا ہو، پھر اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے کفریہ عمل کرنے لگے، تو یقیناً ایسا شخص بھی کافر ہے۔ اور جو شخص اپنی جان جانے کے خوف سے کفریہ عمل کا ارتکاب کرے، اور اس کا دل اسلامی تعلیمات سے راضی ہو، تو اس کا ایمان صحیح سلامت رہے گا، اور اس جیسے شخص پر اپنے اس عمل کا کوئی وبال نہیں ہوگا؛ اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:{مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو۔ }(آلِ عمران: 28)