اللہ تعالی فرماتے ہیں:{کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے۔ }(ابراھیم: 24 – 25) ، ایمان سے حاصل ہونے والے کچھ درجِ ذیل ثمرات:
1-سچا ایمان نفسیاتی راحت و سکون اور انشراحِ صدر کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تعالی کے درجِ ذیل قول کا مصداق یہی ہے:{یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں }(یونس: 62)
2-مومنوں کو اللہ تعالی کی خصوصی معیت نصیب ہوتی ہے، یعنی ایمان مومنوں کو کفر و شرک کی تبارہ کاریوں سے ایمان و ثواب کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔
3-اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی اور وہ جنت ملتی ہے، جس کا سچا ایمان رکھنے والوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وہ ہمشیہ ہمیش رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے۔ }(التوبۃ: 72)
4-اللہ تعالی اپنے دوستوں، اپنی جماعت اور اپنے محبوب مومن بندوں کا دفاع کرتا ہے:{سن رکھو یقینا سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالی ہٹادیتا ہے۔}(الحج: 38)
اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ ہجرت کے اوقات میں دفاع کیا، اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اس وقت دفاع کیا، جبکہ وہ آگ میں ڈالے جاچکے تھے۔
5- دین میں بلندی و امامت نصیب ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:{اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے۔ }(السجدۃ: 24)
دیندار اور اللہ پر یقین رکھنے والوں کی امامت کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے ذکر کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھ دیا، اور ان کے کارناموں کو زندہ جاوید بنادیا، جبکہ وہ لوگ مٹی میں سوئے ہیں اور ان کے جسم ناپید ہوچکے ہیں، لیکن ان کی باتیں اور ان کی زندگی کے حالات آج تک باقی ہیں۔
اللہ تعالی پر ایمان رکھنا کمزور انسان اور اس کے پروردگار کے درمیان ایک رشتہ ہے، اور اسی طرح طاقتور انسان اسی ایمان سے اپنے آپ کو تقویت پہنچاتا ہے۔6-مومنوں کو ملنے والی اللہ تعالی کی محبت، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{جو اللہ کی محبوب ہوں گے اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے۔ }(المائدۃ: 54)
اور اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ:{بیشک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کئے ہیں ان کے لئے اللہ رحمٰن محبت پیدا کردے گا۔ }(مریم: 96)
7-دنیا و آخرت میں خوشگوار زندگی، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔ }(النحل: 97) ، بہتر زندگی اور خوش نصیبی کی تلاش کرنے والے کہاں ہیں؟
ایمان کے بناء زندگی یقینی موت ہے ۔ ۔ ایمان کے بناء آنکھ اندھی ہے ۔ ۔ ایمان کے بناء زبان گونگی ہے ۔ ۔ ایمان کے بناء ہاتھ مفلوج ہیں ۔ ۔8 -مومن اور اللہ تعالی کے درمیان پیدا ہونے والی دو طرفہ محبت، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{جو اللہ کی محبوب ہوں گے اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے۔} (المائدۃ: 54) ، یعنی اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے، اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کرتا ہے۔
9-ایمان والوں کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی عزت کی خوشخبری، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنا دیجئے۔ }(التوبۃ: 112)
خوشخبری صرف بڑی بڑی چیزوں کی ہوتی ہے، جس کا اثر واضح طور پر چہرے پر نظر آتا ہے، اسی لئے اس کا نام بشارت یعنی خوشخبری رکھا گیا ہے، اور اللہ تعالی کی رحمت و خوشنودی اور جنت سے بڑھ کر کوئی اور چیز بڑی نہیں ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اور ایمان والوں کو اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ }(البقرۃ:25)
10-ایمان ثابت قدمی کا اہم وسیلہ ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابل پر لشکر جمع کرلئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھادیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ }(آل عمران: 173) ، ثابت قدمی کی سب سے واضح دلیل انبیاء، صحابہ، تابعین اور ان کے پیروکاروں کے وہ کارنامے ہیں، جن کو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔
11-نصیحتوں سے سبق حاصل کرنا، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اور نصیحت کرتے رہیں یقینا یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی } (الذاریات: 55) ، چنانچہ نصیحت صرف اور صرف مومن ہی حاصل کرتے ہیں۔
12-ہر حال میں مومن کے لئے خیر کا فیصلہ کیا گیا ہے، چنانچہ تنگی اور خوشحالی دونوں حالتوں میں خیر مومن کا ساتھی و مددگار ہوتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:&"مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے، کہ اس کی ہر چیز میں خیر رکھا گیا ہے، اور مومن کے علاوہ کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ہے۔ اگر مومن کو کوئی خوشی پہنچے، اور وہ شکر ادا کرے، تو یہ اس کے لئے خیر ہے، اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس تکلیف پر صبر کرلے، تو یہ بھی اس کے لئے خیر ہی کا ضامن ہے۔&"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) ، ایمان بندے کو مصیبتوں میں صبر اور راحتوں میں شکر کا عادی بناتا ہے۔
13-مومن کبیرہ گناہوں سے دور رہتا ہے، چنانچہ صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مروی ہے کہ:&"کوئی زانی وقتِ زنا حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا ہے ۔ ۔&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے) ، یہ ایمان کے بیش بہا اور عظیم نتائج ہیں، تو خوش بختی، دلی سکون اور راحت کی متلاشی کہاں ہیں؟
مومن کی زندگی پر پڑنے والے ایمان کے اثرات:
1-مومن کے دل میں یہ جذبہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ شریعتِ مطہرہ کی پیروی کرے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: {ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ }(النور: 51) ، ایمان بندے کو اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے میں پہل کرنے کا عادی بناتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:{سو قسم ہے تیرے پروردگار کی، یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں، ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ }(النساء: 65) ، بلکہ ایمان تو بندے کو اللہ تعالی کے احکامات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے اور اس سے راضی رہنے پر ابھارتا ہے۔
2-اللہ تعالی بندے کو شرکِ جلی اور شرکِ خفی سے محفوظ رکھتے ہیں، اسی کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو اپنا مددگار نہیں بناتا ہے، اور نہ اس کےعلاوہ کسی سے کچھ مانگتا ہے؛ کیونکہ نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ عز و جل کی ذات گرامی ہے:{اور اگر تجھ کو اللہ تعالی کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ تعالی کے اور کوئی نہیں ہے۔ }(الانعام: 17)
اے ایمان والو ایمان لے آؤ، اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ایمان کی دعوت دی، اور اس پر ابھارا، کیونکہ ایمان کا مقام و مرتبہ بہت اونچا ہے۔3-اللہ کے لئے محبت اور اللہ ہی کے لئے نفرت رکھنا: یہ ایمان کی سب سے مضبوط رسّی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ }(الحجرات: 10)
اس بھائی چارگی کی سب سے زیادہ واضح دلیل انصاری صحابہ اور مہاجرین کے درمیان پیدا ہونے والی بھائی چارگی، اور انصاری صحابہ کا اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنا جان و مال خرچ کرنے کا جذبہ ہے۔ یقینا رسولِ معصوم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:&"اُس وقت تک کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہ سب کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)
4-اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے کے درمیان صبر و تحمل سے کام لینا، اور اس کو راضی کرنے کے لئے اپنی ہر عمدہ و قیمتی چیزوں کو خرچ کرنا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر - پکا - ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، - اپنے دعوائے ایمان میں – یہی سچے اور راست گو ہیں۔ }(الحجرات: 15)
5-اللہ کی ذات، اس کی طرف سے کئے ہوئے وعدے، اللہ کے پاس ملنے والی نعمتوں اور سعادتوں سے دل کا مربوط ہونا: چنانچہ مومن بندے کے لئے دنیا میں ملنے والی جنت، ایمان اور خدائے رحمان کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ وہ تو اللہ آخرت کی اُس جنت کا متمنی ہوتا ہے، جس کا اللہ تعالی نے اس سے وعدہ کیا ہے، بلکہ وہ تو خود کو پہنچنے والی ہر مصیبت و تکلیف اور مشقت پر اللہ تعالی کی طرف سے ثواب کی امید رکھتا ہے، اور اس کا یقین ہوتا ہے کہ ان مصبیتوں پر صبر کرنے پر ملنے والا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں، اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں، یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو تکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجبِ غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جو کچھ خبر لی، ان سب پر ان کے نام - ایک ایک – نیک کام لکھا گیا۔ یقینا اللہ تعالی مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ }(التوبۃ: 120-121)
یہ سارا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے، جو اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھتے ہیں ، اور صدقِ دل سے اس کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔
6-اللہ تعالی اور اس کے رسول کی دوستی مقدر ہوتی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{(مسلمانو!) تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور وہ رکوع (خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں۔ }(المائدۃ: 55)
اور اللہ تعالی کی دوستی کا مطلب اس کی محبت، اپنے دین کی نصرت، اپنے دوستوں سے محبت اور مخالفین یعنی اللہ کے دشمنوں سے براءت ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبے (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا، جن کی نیچے نہریں بَہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے، آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔ }(المجادلۃ: 22)
بلکہ مومن تو اللہ تعالی، اس کے رسول اور دیگر مومنوں کا ہی دوست ہوتا ہے، اور کبھی کسی کافر کو ہرگز اپنا دوست نہیں بناتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{مومنوں کو چاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں۔ }(آل عمران: 28)
7-مومن کا اعلی معیاری اخلاق والا ہونا۔ یقینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:&"حیاء اور ایمان دونوں ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں، جب ان میں سے کوئی ایک چیز ختم ہوجاتی ہے، تو دوسری چیز بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہے&"(اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے)
حسنِ اخلاق کا سب سے بڑا مظہر حیاء ہے۔ چنانچہ مومن بندہ اپنے بھائیوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آتا ہے، تاکہ وہ مسائل و مشاکل اور لڑائی جھگڑوں سے خالی دنیوی زندگی گزارے ۔ ۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ مومن ہے، اور یہ صرف مومن ہی کی شان ہے۔
8-حقیقی خوش بختی اور دلی سکون؛ جس سے کہ مومن بندے میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ سعادت و راحت کی دنیوی جنت میں جی رہا ہے؛ کیونکہ اس کا پروردگار ایک اللہ ہے، اس کا نبی ایک محمد بن عبداللہ ہے، اس کے لئے ایک ہی راستہ یعنی اللہ کی خوشنودی کی جستجو ہے، اور اس کا واحد مقصد آسمان و زمین کی چوڑائی رکھنے والی جنت کا حصول ہے۔
آپ اپنے دائیں بائیں نفسیاتی مریضوں کے کئی ہسپتال دیکھتے ہیں، جن میں مریضوں کی تعداد بھری پڑی ہوتی ہے۔ آپ لوگوں سے ان کی دکھ بھری داستان، تکالیف، پریشانیاں، نیند کی کمی، اوہام و خیالات کے واقعات جب بھی سنتے ہیں، تو آپ یہ یقین کرلیں کہ ان سب کی وجہ صرف اور صرف اللہ تعالی سے دوری، دنیا سے لگاؤ اور اس کے پیچھے بھاگنا ہے، کیونکہ مادہ پرستی روحانیت پر غالب آچکی ہے، اور انسان کو روحانی غذاء کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ روحانی غذاء صرف اللہ سے لَو لگانے، اس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے، ہمیشہ اس کی یاد میں غرق رہنے، فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اچھی و بری اور میٹھی و کڑوی تقدیر پر ایمان رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دل کے علاج سے، قلبی راحت سے، اور دنیا میں ملنے والی جنت سے غافل رہتے ہوئے فانی دنیا کے ساز و سامان کے پیچھے بھاگے چلے جارہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ اپنی مراد کو پاتے ہیں، اور نہ وہ دنیوی راہ میں سِرے سے سکون حاصل کرپاتے ہیں۔
روحانیت کو صرف ایمان سے سیراب کیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ روح اللہ تعالی کے پاس سے ملی ہوئی نعمت ہے، اور جسم کو تو اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ جب بھی آپ اپنی روحانیت کو سیراب کرلیں گے، تو آپ اپنے آپ کو بلندی کی طرف گامزن پائیں گے، آپ کو سکون و اطمینان نصیب ہوگا، اور گندی و گھٹیا چیزوں سے آپ کے دل میں کراہت پیدا ہوجائے گی۔ اور جب بھی آپ روحانیت سے کنارہ کشی کریں گے، تو آپ مادہ پرستی و حیوانیت کی طرف بڑھنے لگیں گے، آپ تنگئ نفس اور پریشانیوں کے شکار رہیں گے، اور ان پریشانیوں کے سامنے آپ کی دنیا تاریک ہوجائے گی۔