خدا کی پہچان کروانے والے رسولوں پر ایمان لانا

خدا کی پہچان کروانے والے رسولوں پر ایمان لانا

خدا کی پہچان کروانے والے رسولوں پر ایمان لانا

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یونہی بلامقصد نہیں پیدا کیا ہے، اور نہ انہیں یونہی بیکار چھوڑا ہے، چنانچہ اللہ نے بندوں کے پاس اپنے رسول بھیجے، جو اُن کو اپنے رب کی عزت و عظمت اور اس کی شریعت سے روشناس کرواتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانوں میں سے ہی کئی رسول بندوں کے پاس بھیجے ۔ ۔ ۔ حضرت نوح، ابراھیم، موسی اور عیسی علیھم السلام کو بھیجا، اور رسالت کے سلسلے کو افضل الرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مہر بند کیا۔ ان رسولوں کے ساتھ ان کی سچے ہونے کی ساری نشانیاں بھی نازل کیں۔ رسولوں نے خود کو دی ہوئی امانت کا حق ادا کیا، اپنا پیغام پہنچایا، اور بندوں کو ان کے پروردگار و خالق سے روشناس کروایا۔ اب جو ان رسولوں کی رسالت اور ان کے سچے ہونے پر ایمان نہیں لاتا ہے، وہ یقینی طور پر اللہ تعالی پر بھی ایمان رکھنے والا نہیں ہے؛ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان لائے، یہ سب اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ } (البقرۃ: 285)

چونکہ یہ انبیاء اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے مبلغ ہیں، اس لئے ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: {اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے۔ }(البقرۃ: 285)

اللہ تعالی نے رسولوں کے ساتھ کتابیں بھی نازل کیں، تاکہ انسانوں کے لئے یہ کتابیں نور و ہدایت ہوں، چنانچہ اللہ تعالی نے ابراہیم کے ساتھ صحیفے نازل کئے، داؤد کے ساتھ زبور، موسی کے ساتھ تورات، عیسی کے ساتھ انجیل، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا معجزانہ کلام قرآن کریم نازل کیا؛ اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے۔ }(ھود: 1)

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نور و ہدایت، برکت اور برہان بناکر نازل کیا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:{اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر و برکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔ }(الانعام: 155)

نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آ پہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتاردیا ہے۔ }(النساء: 174)

اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء و افضل البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، اور آپ کی رسالت پر ایمان لانے کو کلمہ شہادت &"اشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله&" میں اپنی وحدانیت پر ایمان لانے کے ساتھ جوڑدیا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے، اور اسی رحمت کا نتیجہ ہے کہ آپ انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف، جہالت سے علم کی طرف، اور گمراہی سے ہدایت و ایمان کی طرف لے آ‍‌‌ئے، آپ نے امانتِ نبوت کا پورا پورا حق ادا کیا، اور امت کی خیرخواہی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی منفعت کے بڑے خواہشمند تھے، جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں، جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ }(التوبۃ: 128)

اللہ تعالی نے اپنے نبی و رسول کو ان کے شایانِ شان حقوق دیئے، کیونکہ آپ سارے انسانوں میں سب سے افضل اور ان کے سردار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:&"آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں اور مجھے اس پے کو‎ئی فخر نہیں&" (اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض حقوق یہ ہیں:

1-یہ یقین رکھنا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو ساری دنیا کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے، اور آپ نے امانتِ نبوت کا پورا پورا حق ادا کیا، اور اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ ۔}(التغابن: 8)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:&"اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، اس امت کا کوئی بھی شخص، یہودی ہو یا نصرانی، جو بھی میری نبوت کے بارے میں سنے، پھر اس کی موت ہوجائے، اور وہ میرے لائے ہوئے پیغام پر ایمان نہ لایا ہو، تو وہ ضرور جہنم رسید ہوگا&"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

2-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے سامنے پیش کیا ہے، اس کی تصدیق کرنا اور اس کو قبول کرنا، نیز یہ یقین رکھنا کہ آپ نے بلا شک و شبہ اللہ تعالی کی طرف سے حق کا پیغام پہنچایا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر پکا ایمان لائیں اور پھر شک و شبہ نہ کریں }(الحجرات: 15)

نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ }(النساء: 65)

3-آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا؛ اللہ تعالی نے فرمایا کہ:{آپ کَہ دیجیئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ }(التوبۃ: 24)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:&"اس وقت تک کوئی شخص مومنِ کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کی نظر میں اپنی اولاد، والدین اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں&"(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)

4-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تقدس؛ اللہ تعالی نے فرمایا:{تاکہ (مسلمانو) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو۔ }(الفتح: 9)

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:{سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجاگیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔}(الاعراف: 157)

5-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے یعنی اُن اہلِ بیت کی تعظیم اور ان سے محبت رکھنا، جنہوں نے اسلام قبول کیا، آپ کی سنتوں پر عمل کیا، اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو صحیح طور پر سمجھا، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:&"میں اپنے گھر والوں کے بارے میں تمہیں اللہ کا خوف یاد دلاتا ہوں،&"میں اپنے گھر والوں کے بارے میں تمہیں اللہ کا خوف یاد دلاتا ہوں،&"میں اپنے گھر والوں کے بارے میں تمہیں اللہ کا خوف یاد دلاتا ہوں&"(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

اہلِ بیت لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم مخلوق ہیں، جیسے آپ کی ازواجِ مطہرات، آپ کی اولاد، اور آپ کے وہ رشتے دار جن کے لئے صدقہ کھانا حرام ہے۔ اہلِ بیت کی شان میں گستاخی کرنا، یا انہیں گالی دنیا جائز نہیں ہے، نیز اسی طرح ان لوگوں کو معصوم یا گناہوں سے پاک سمجھنا، یا اللہ کو چھوڑکر ان سے دعائیں مانگنا بھی جائز نہیں ہے۔

6-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ سے محبت کرنا، جنہوں نے آپ پر ایمان لایا، اور آپ کو سچا مانا اور ان صحابہ کرام کے بارے میں غلط بیانی میں نہ پڑنا، کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی مدح سرائی سے نوازا ہے۔

7-جن صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، اور آپ کو سچا مانا ہے، ان کے بارے میں غلط بیانی میں نہ پڑنا، کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی مدح سرائی سے نوازا ہے۔ {محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے۔ }(الفتح: 29)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے بارے میں یہ فرمایا کہ:&"میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ کو گالی مت دو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے، تو بھی وہ میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے قَد تک، بلکہ اس کے نصف تک بھی نہیں پہنچ پائیگا۔&" (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

صحابہ میں سب سے افضل و اشرف خلفاء راشدین: حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں؛ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔ }(التوبۃ: 100)

ان سارے صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہونے والی ساری باتیں پہنچائی، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ علم و معرفت تک ہماری رسائی ہوئی۔



متعلقہ: